Urs e Waris Pak 1 Safar

1 Safar ⚘Urs Shareef⚘
Waris e irs e Nabi o Ali , Dilband e Fatimi , Qarar e Qalb e Hasan , Aulaad e Pak e Hussain a.s. Makhdoom ul Asfiyaa , Taj ul Foqara , Khwaja e Gul-gu’n Qaba , Mazhar e Shan e Panjatan , Mazhar e Anwaar e Zul-minan , Sarkar e Alampanah Alam-nawaz Qibla o Ka’aba Haji ul Haramayn , Najeeb ut Tarafayn , Kareem ul Abawayn Sarapa e Rehmatul lil Aalameen Huzur Anwar Sayyiduna wa Murshiduna wa Mawlana SYED WARIS ALI SHAH KAZMI (Azam Allaho Zikruhu) !
Ka
Urs Bahut Bahut Mubarak ❤❤❤

Hazrat e Waris Chiraag e Khaandane Panjtan
Yaadgare Panjtan Naam wa Nishane Panjtan

Shah e Tasleem Wa Raza Ibne Shaheed e Karbala
Khwaza Gulgu Qaba Rooh e Rawane Panjtan

Sabz Gumbad Ke Makeen Ae Waris e Duniya o Deen
Raahate Qalbe Hazee.n Ae Jaan Jaane Panjtan

Nayyar e Burje Siyadat Gauhar Taaje Sharaf
Ae Gule Zahra Bahare Bustane Panjtan

Qibla e Imaan Wa Deen Naqshe Qudoome Ahele Bait
Kaaba e Maqsood ‘BEDAM’ Aastane Panjtan

-Mehbubul Aarefin Lisanutariqat Hazrat Bedam Shah Warsi Aliah Rehma

उर्स शरीफ हज़रत सय्यिद शैख वारिस अ़ली शाह अलैहिरहमा लखनऊ देवा शरीफ। आप हिन्दूस्तान के मशहूर बुजुर्गों में से हैं। आपके आबा वा अजदाद नीशापूर के इज़्ज़तदार और साहिबे कमाल सय्यादो में से थे। सय्यद अशरफ अबू तालीब नीशापूर से हिन्दुस्तान आ कर किन्तौर ज़िला बाराबन्की में आबाद हुए। आप की आठवीं पुश्त में सय्यद अब्दुल अहद अलैहिरहमा 1127 हि0 में किन्तौर से देवा शरीफ चले आए। यही हज़रत हाजी वारिस अली शाह रहमतुल्लाहि तआला अलैहि 1234 हि0 में पैदा हुए। आपके वालीदे गिरामी का नाम सय्यद कुर्बान अली था और वालिदा का नाम सय्यदा बीबी सकीना उर्फ चांदन बीबी रहमतुल्लाहि तआला अलैहा।

हज़रते वारीस ए पाक अलैहिरहमा की उम्र दो साल से कुछ ज़्यादा थी कि शफ़ीक बाप का साया सर से उठ गया और फिर तीन साल की उम्र में जब वालिदा का भी इन्तिका़ल हो गया तो आपकी दादी ने आपकी परवरिश फरमाई। पांच साल की उम्र में आप की तालीम शुरू हुई। हज़रत अमीन अली शाह से दो साल में हिफ़ज़े कुरआन मुकम्मल किया। और मौलवी इमाम अली निवासी सतरख से दरस ए निज़ामीया कि इब्तिदाई किताबे आप पढ़ रहे थे कि दादी साहिबा का इन्तिका़ल हो गया। दादी के इन्तिका़ल के बाद हज़रत वारीस अली शाह को आपके के बहनोई हज़रते हाजी सय्यद ख़ादिम अ़ली शाह क़ादिरी चिश्ती अलैहिरहमा देवा शरीफ से आपको लखनऊ ले आए और तालीम का सिलसिला जारी रखा। बाज़ किताबे आपने हज़रत शाह साहिब से पढी़।हज़रत ने वारीस ए पाक को निहायत दिलजोई से पढ़ाया। शैख वारिस अ़ली अलैहिरहमा के बारे में कहा जाता है कि दरसी किताबे होने के क़रीब थी कि जोशे इश्क ने बेकरार किया तो अपने सिलसिलाए ए तालीम खत्म कर के आपने मुलके अरब कि सैर का कस्द किया। और आप के बारे में आता है कि आप ने पैदल सफर किया और अक्सर इरशादात से ज़ाहिर होता है कि आप को इल्मे अदब में कमाल और तफ़सीर वा हदीस में काफ़ी महारत थी। ज़िन्दगी भर मुजरद (कुंवारे) रहे कभी निकाह नहीं किया और हज के पहले ही सफर में आपने आम लिबास को छोड़ दिया फिर हमेशा एहरामपोश रहे (बेसिला कपड़ा पहनना)। ज़रद रंग की बगैर सिली हुई एक लुंगी पहनते रहे और उसी रंग का एक कपड़ा ओढ़ते, निहायत ही सादा फ़क़िराना ज़िन्दगी गुज़ारी 1323 हि0 में दुनिया से रुखसती हुई। देवा शरीफ ज़िला बारा बन्की यू पी में आप का मज़ारे मुबारक ज़ियारत गाहे खास वा आम है।

📚(माखूज़ अज़ सईयुलहारिस फी रियाहीनुलवारिस)

📗 बुजुर्गों के अकीदे

मुअल्लीफ :फकीहे मिल्लत मुफ्ती जलालुदीन अहमद अमजदी साहब।

अल्लाह तआला हम सब को हज़रते सय्यिदुना हाजी वारीस अली शाह रहमतऊल्लाही तआला अलै के फैज़ान से सरफाराज फरमाए आमीन 🤲🏻

تعلیمات وارث پاک کے درخشاں نقوش

سرزمین ہند ابتدا ہی سے مذاہب و ادیان کا گہوارہ رہی ہے۔ ہر عہد میں یہاں مذہبی رہ نما اور اخلاق و انسانیت کے مدرس پیدا ہوتے رہے ہین۔ اس لیے اگر کہا جائے کہ اس کی خمیر میں روحانیت رچی بسی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کے با وجود گردش ایام نے یہاں کی مذہبیت کو یقیناً متاثر کیا۔ لوگوں کا ایک بڑا طبقہ انسانیت کے درس عظیم کو نسیاً منسیا کر کے مادی بھول بھلیوں میں کھو گیا۔ خود مذہب کے نام پر عوام الناس کا استحصال کیا جانے لگا۔ ایسے ماحول میں نور تصوف و روحانیت کی قندیل لے کر حضرت وارث پاک دیویٰ کی سر زمین سے افق عالم پر ابھرے اور بلا تفریق مذہب و ملت انسانیت کی رہ نمائی کی۔ دکھی دلوں کے لیے مرہم کا کام کیا اور نہ خود اس کا عملی نمونہ بنے رہے بلکہ ایک مستقل سلسلہ قائم کر دیا، جس نے پہلے دیویٰ کو اپنا مرکز بنایا اور پھر ملک کے طول و عرض میں اس کی نورانی کرنیں پھیلتی طلی گئیں اور امن و آشتی، محبت و یقین، عزم و حوصلہ، جرات و ہمت، خدمت خلق، خدا پرستی اور اپنے مالک حقیقی سے براہ راست ربط و تعلق کی جو بنیاد استوار کی اور جو پیغام آپ نے دیا وہ پورے ملک کے عوام الناس کے لیے رحمت کا پیغام بن گیا۔
سلاطین و حکمراں کی حکم رانی صرف زمین پر ہوا کرتی ہے اور وہ فقط ایک عہد تک حکومت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن دل و روح کے حکم رانوں کی حکومت خود زمین کے بادشاہوں پر بھی ہوتی ہے اور زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ ان کی بادشاہی فقیری ہوتی ہے، وہ فقیر ہوتے ہوئے بھی دلوں کے بادشاہ ہوتے ہیں۔ ان کی بادشاہی زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتی ہےاور جسم و روح دونوں پر ہوتی ہے۔ اس مین کوئی شک نہیں کہ بڑے بڑے حکم راں وارث پاک کے روضے پر حاضری کو سعادت سمجھتے رہے ہیں اور حکم راں ہی کیا امیر و غریب ہر طرح کے لوگ حاضری دیتے رہتے ہیں ۔ ان کے دربار میں حاضری کا یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ آج بھی لاکھوں کی تعداد میں عقیدت مند ان کے دربار میں اسی امنگ اور جذبے کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں جو جذبہ اور لے کر پہلے کے لوگ جایا کرتے تھے۔ اس فقیر بے نوا کے مزار پر کشاں کشاں عقیدت مندوں کا ہجوم ان کی بادشاہی اور اور عظمت وو رفعت کا منہ بولتا ثبوت ہی تو ہے۔
آیئے، دلوں پر حکم رانی کرنے والی اسی رفیع الشان اور عظیم المرتبت شخصیت کی “تعلیمات کے درخشاں نقوش” اس مضمون میں پیش کیے جا رہے ہیں، ملاحظہ ہوں آئندہ سطور میں:
اسلام کا رکن اول توحید : توحید اسلام کا پہلا رکن ہے۔ حدیث پاک میں رسول کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم ارشاد فرماتے ہیں:
بنی الاسلام علی خمس شھادۃ ان لا الہ الا اللہ و ان محمدا رسول اللہ واقام الصلاۃ و ایتاء الزکاۃ و صوم رمضان و حج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔
یعنی اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔
(1)توحید باری اور رسالت محمدی ﷺ کا اقرار کرنا۔
(2) نماز پڑھنا۔
(3) زکاۃ دینا۔
(4) رمضان کے روزے رکھنا۔
(5) صاحب استطاعت ہونے پر بیت اللہ شریف کا حج کرنا۔(1)
توحید کے متعلق فرمان وارث:
مولف حیات وارث جناب شیداؔ وارثی لکھتے ہیں: حضرت وارث پاک نے توحید کے متعلق فرمایا: ایک ذات سے سروکار رکھو، اور جو ظاہری یا باطنی واردات پیش آئیں ان کا فاعل حقیقاسی کو سمجھو۔ (2)
توحید کی حقیقت:
جناب غلام رسول وارثی جو پنڈت تھے او وارث پاک کے فیضان نظر سے مسلمان ہو گئے تھے، ایک رتبہ بارگاہ وارث میں حاضر ہوئے اور عرض کی: حضور! آپ نے اس گناہ گارکو مشرک سے موحد تو بنا دیا لیکن ابھی میں توحید سے نابلد ہوں۔ ارشاد ہوا: توحید کے ظاہری اور مشہور معنیٰ تو یہ ہیں کہ خدا کو ایک کہو اور ایک سمجھو جو ایمان کے لیے شرط ہے، مگر توحید کے دوسرے معنیٰ یہ ہیں کہ خدا کو ایک دیکھو یہ عرفا کا مقام ہے۔ اس لیے یہ من جانب اللہ موحد کے قلب پر القا ہو جاتے ہیں اور موحد اپنی چشم بصیرت سے ہر چیز میں خدا کا جلوہ دیکھتا ہے۔ (3)
ذات باری تغیرات سے پاک:
ایک مولوی صاحب جو راول پنڈی کے رہنے والے تھے پنجابی لباس میں ملبوس دیویٰ شریف میں حاضر خدمت ہوئے اور قدم بوسی کے بعد عرض کی: حضور! ناچیز جاننا چاہتا ہے کہ واحد و لاشریک خدا کی وہ صفات و خصوصیات کیا ہیں جو اس کی شان الوہیت کے لیے برہان قطعی ہیں؟ ارشاد ہوا: دیگر خصائص کے ساتھ اس کی ایک مخصوص صفت یہ ہے کہ ذات باری تغیرات سے پاک ہے ۔ یہ اس کے خالق مطلق ہونے کی عین دلیل ہے اور مخلوق کے حالات میں تغیر و تبدل ہونا لازمات سے ہے۔ (4)
نجات کا راستہ:
علی گڑھ اسٹیشن پر ایک طالب راہ حق نے حضرت وارث پاک سے دست بستہ عرض کی: خدا کے واسطے مجھے نجات کا راستہ بتائیں۔ ارشاد ہوا: تم مسلمان ہو، تمھاری نجات تو اسی میں ہے کہ صدق دل سے کہو: لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ۔ (5)
اسلام کا رکن ثانی نماز:
ایمان و عقائد کی درستگی کے بعد تمام فرضوں میں اہم فرض نماز ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی بہت زیادہ تاکیدیں آئی ہیں۔ جو شخص نماز کو فرض نہ مانے یا اس کی توہین کرے یا اسے ایک ہلکی یا بے قدر چیز سمجھ کر اس سے بے توجہی کرے وہ کافر اور اسلام سے خارج ہے۔ جو شخص نماز نہ پڑھے وہ بڑا گناہ گار، قہر قہار و غضب جبار میں گرفتار اور عذاب جہنم کا حق دار ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ بچہ جب سات برس کا ہو جائے تو اسے نماز سکھا کر نماز پڑھنے کا حکم دیا جائے اور جب بچے کی عمر دس برس ہو جائے تو اسے مار مار کر نماز پڑھوائی جائے۔ (6)
نماز کے متعلق فرمان وارث:
نماز روح کی غذا ہے۔ نماز وہی ہے جو حضوری قلب کے ساتھ ہو۔ نماز میں خشوع و خضوع لازمی ہے۔ اس سے نماز واقعی نماز ہوتی ہے۔ نماز مومنوں کی معراج ہے، کیوں کہ اس سے قسم کی حضوری نصیب ہوتی ہے۔ جس کا خیال جس قدر پختہ ہوگا اسے اسی قدر حضوری کا لطف حاصل ہوگا۔ نماز وقت پر ادا کرنا افضل اور فرماں برداری کی نشانی ہے۔ نماز میں عمداً دیر کرنا کاہلی کی دلیل ہے اور مالک کے حکم میں کاہلی عبدیت کے منافی ہے۔ (7)
نماز کی برکت سے بارش ہو گئی:
چودھری خدا بخش وارثی جو اٹاوہ کے رہنے والے تھے اور وارث پاک کے بڑے معتقد تھے بیان کرتے ہیں کہ ایک سال بارش نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بہت پریشان تھے، اسی دوران وارث پاک شکوہ آباد تشریف لائے۔ لوگوں نے عرض کی: حضور ! بارش نہیں ہو رہی ہے، ہمارے کھیت سوکھ رہے ہیں، اگر یہی حالت رہی تو ہم خانماں برباد ہو جائیں گے۔ ارشاد ہوا: خدا کو عاجزی بہت پسند ہے، توبہ کرو اور پابندی کے ساتھ نماز پڑھا کرو، کیوں کہ نماز سراپا عجز کی نشانی ہے، وہ رحم کرے گا۔ یہ سن کر سب نے توبہ کی اور نماز کی پابندی کا عہد کیا، دوسرے روز بارش ہوئی اور خوب پیداوار بھی ہوئی۔ (8)
مسجد سجدوں کی گواہی دے گی:
منشی تفضل حسین وارثی، جو اٹاوہ کے وکیل تھے اور وارث پاک کے خاص مریدوں میں تھے، بیان کرتےن ہیں کہ ایک مرتبہ وارث پاک کان پور تشریف لائے۔ مجھے معلوم تھا کہ حضرت جمعہ کی نماز کے لیے پا پیادہ مسجد جاتے ہیں، لہذا میں نے محلے کی مسجد میں انتظام کر دیا تا کہ دوپہر کے وقت سخت دھوپ میں زیادہ دور نہ جانا پڑے۔ جب لوگ جمع ہوئے تو میں حضرت کو لے گیا۔ آپ نے مسجد کے در و دیوار کو بوسیدہ دیکھ کر فرمایا: کیا محلے کے مسلمان اس مسجد کی خدمت نہیں کرتے؟ میں نے عرض کی: اس محلے میں کوئی نمازی ہی نہیں، ارشاد ہوا: تم اس مسجد کی مرمت کراؤ اور سب سے کہو کہ نماز کی پابندی کریں۔ ہر شخص نے پابندی کا عہد کر لیا۔ پھر میں نے مسجد کی مرمت شروع کر دی اور ایک موذن بھی مقرر کر دیا۔ کچھ عرصے بعد حضرت دوبارہ تشریف لائے تو مسجد کو آباد دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ارشاد فرمایا: حشر کے روز یہ مسجد سجدوں کی گواہی دے گی۔(9)
بے نمازی حلقہء بیعت سے خارج:
فضل حسین وارثی )(مسند آراے شاہ ولایت حضرت عبد المنعم قادری) بیان کرتے ہین کہ ایک مرتبہ حضرت وارث پاک کی تشریف آوری کی خبر سن کر ہم لوگ قدم بوسی کے لیے بستی کے باہر نکلے۔ جب حضرت کی سواری آئی اور آپ نے لوگوں کا مجمع دیکھا تو پہلا جملہ جو ارشاد فرمایا وہ یہ تھا: سب سے کہہ دو کہ جو نماز نہ پڑھے گا وہ ہمارے حلقۂ بیعت سے خارج ہے۔ (10)
نظام عالم کی خرابی:
حاجی اوگھٹ شاہ وارثی نے ایک بار حضرت وارث پاک سے عرض کی: حضور! اکثر لوگ نماز نہیں پڑھتے۔ وارث پاک نے ارشاد فرمایا: نماز ضرور پڑھنا چاہیے، یہ نظام عالم ہے، اگر یہ چھوڑ دی جائے تو نظام عالم میں خرابی ا جائے گی۔ (11)
عبد و معبود کا امتیاز
قای منیر عالم وارثی جو دربھنگہ کے رہنے والے تھے ، بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ وارث پاک میرے گھر تشریف لائے۔ دوران قیام بطور نصیحت آپ نے ارشاد فرمایا: نماز سے عبد و معبود کا امتیاز ہوتا ہے، ہیئت مجموعی عبدیت کی عین تصویر ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو سر نگوں ہے وہ بندہ ہے اور جس کے آگے ناک رگڑتا ہے وہ خدا ہے اس کے لیے بندے کو بندگی لازم ہے۔ (12)
اتباع سنت کا جذبہ:
منشی نادر حسین وارثی، جو نگرام کے رہنے والے تھے، بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جمعے کے روز حضرت واقرث پاک نے نماز جمعہ کے لیے وضو کیا اور چار رکعتیں بستر کے قریب پڑھیں اس کے بعد ارشاد فرمایا: سنتیں مکان مین پڑھ کر مسجد کو چلنا مسنون ہے۔(13)
حدیث رسول سے محبت:
حکیم کلن وارثی ، جو شاہ جہاں پور کے رہنے والے تھے، بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ وارث پاک میرے یہاں مہمان تھے، جمعہ کے روز حضرت نے ضعف پیری کے باوجود پا پیادہ مسجد جانے کا ارادہ فرمایا، میں نے عرض کی: حضور! تمازت آفتاب سے زمین بہت گرم ہے، پالکی پر تشریف لے چلیں، حضرت نے فرمایا: حدیث پاک میں ہے: مسافت مسجد پیدل طے کرنے سے ہر قدم پر ایک نیکی ملتی ہے۔(14)
مزدوری میں کمی:
مولوی فضل امام صاحب، جو بانکی پور کے رہنے والے تھے ، بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت وارث پاک میرے مہمان تھے، جمعہ کا دن تھا، حضرت نے مسجد جانے کا ارادہ ظاہر فرمایا، لہذا میں نے ملازمین کو پالکی تیار رکھنے کو کہہ دیا، اس کے بعد حضرت کے خدام نے بتایا کہ حضرت نماز کے لیے پیدل جایا کرتے ہیں، لہذا میں نے قریب کی مسجد میں نماز کا انتظام کروا دیا، جب نماز کا وقت ہوا تو سب لوگ حضرت کے ساتھ پاپیادہ مسجد گئے، بعد نماز جب واپس گھر آئے تو حضرت نے مجھ سے فرمایا: تم نے محبت کا حق ادا کر دیا کہ ہمین دور نہیں جانے دیا، البتہ نقصان یہ ہوا کہ آج کی مزدوری کم ہو گئی۔ (15)
ذرے ذرے میں محبوب کا جلوہ:
مولوی سیف وارثی (مختار و رئیس مضافات بہار)نے ایک مرتبہ حضرت وارث پاک سے دستہ بستہ عرض کی: حضور! کیا مجھ جیسے سیاہ کار کے دل میں بھی طلب الٰہی کی صلاحیت آ سکتی ہے؟ ارشاد ہوا: جسے یقین ہوتا ہے کہ حالت نماز میں خدا مجھے دیکھ رہا ہے، اسے ضرور مشاہدۂ انوار الٰہی کا شوق ہوتا ہے اور جس کا شوق کامل اور طلب پختہ ہوتا ہے اسے ذرے ذرے میں محبوب کا جلوہ نظر آتا ہے۔ (16)
اسلام کا رکن ثالث روزہ:
روزہ شریعت میں اسے کہتے ہیں کہ انسان صبح صادق سے غروب آفتاب تک بہ نیت عبادت اپنے آپ کو قصداً کھانے پینے اور عمل زوجیت سے روکے رکھے۔ اسلام کے احکام جس طرح تدریجاً فرض کیے گئے۔ اسی طرح روزے کی فرضیت بھی بالتدریج عائد کی گئی۔ نبی کریم ﷺ نے ابتدا میں مسلمانوں کو صرف ہر مہینے میں تین روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی، مگر یہ روزے فرض نہ تھے۔ پھر 2 ہجری میں رمضان کے روزوں کا حکم قرآن کریم میں نازل ہوا، اور سال میں ایک مہینے کے روزے رکھنا اسلام کا ایک رکن قرار پایا۔ قرآن کریم میں خداے پاک کا ارشاد پاک ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوۡنَ۔(17)
اے ایمان والو !تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔
حدیث پاک میں بھی اس کی بے انتہا فضیلتیں بیان کی گئیں ہیں۔ ایک حدیث میں ہے:
خلوف فم الصائم اطیب عند اللہ من ریح المسک (18)
یعنی روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ خوش بو دار ہے۔
ایک حدیث قدسی مین پرور دگار کائنات کا فرمان ہے:
الصوم لی وانا اجزی بہ (19)
یعنی روزہ میرے لیے ہے اور اس کا بدلہ میں ہی دیتا ہوں۔
روزے کے متعلق فرمان وارث:
روزہ ایسی گراں قدر عبادت ہے جس کی وجہ سے خدا روزے دار کو اپنے دوستوں میں شمار کرتا ہے۔ انسان حالت روزہ میں صفات ملکوت سے متصف ہوتا ہے۔ خدا کی عین رحمت ہے کہ فاقہ جو اس کے نعمت خانے میں عین غذا تھی وہ ہر سال اپنے بندوں کو تیس روز تک مرحمت فرماتا ہے۔ روزہ گناہوں کو مٹاتا ہے۔ روزہ رکھنے سے نفس مغلوب ہوتا ہے۔ روزہ روح کی غذا ہے۔ شوق سے روزہ رکھنا عاشقوں کی سنت ہے۔ روزہ رکھنے سے خدا کی محبت بڑھتی ہے۔ اہل محبت کا روزہ اغراض سے پاک ہوتا ہے۔ روزے دار کو موجودات عالم سے عدم التفات ضروری ہے۔ مشرب عشق میں روزے کی حقیقی صفت یہ ہے کہ ترک غذا کے ساتھ ساتھ خواہشات غذا کے وساوس اور لذات غذا کی تمیز و احساس بھی فنا ہو جائے۔ (20)
وارث پاک اور اہتمام روزہ:
مصنف حیات وارث جناب شیدا وارثی لکھتے ہیں:
روزہ جو کہ اسلام کا فرض عظیم اور ایمان کا مہتم بالشان رکن ہے۔ اس کا اس کا احترام حضرت وارث پاک اس اہتمام کے ساتھ کرتے تھے کہ رویت ہلال سے قبل مسجد میں چونا گردانی ہوتی، کرنال شریف کے مشہور حافظ قرآن قاری عبد القیوم وارثی کو ختم قران کے لیے بلایا جاتا۔ مریدین کو شرکت تراویح کے لیے بتاکید حکم ہوتا، روزانہ عوام و خواص میں افطاری تقسیم ہوتی، کم از کم تیس مجلد اور قیمتی قرآن مجید لکھنؤ سے منگا کر نادار قرآن خوانوں کو دیا جاتا، خدام خاص کی خدمات میں آسانیاں کی جاتیں، مقررہ خیرات جو روزانہ آستانے پر تقسیم ہوتی تھی اس مین کافی اضافہ ہوتا، حاجت مندوں کے گھر کھانا بھیجنے کا فرمان صادر ہوتا اور اخیر عشرے میں غربا و مساکین کے درمیان کپڑے تقسیم ہوتے۔ وغیرہ وغیرہ۔ (21)
مرید وارث محدث شامی کا روزہ:
حاجی مکی شاہ وارثی بیان کرتے ہیں کہ بیروت میں ایک بزرگ رہتے تھے، جن کا نام محدث شامی تھا، اس دیار و امصار کے عوام و خواص ان کا احترام کیا کرتے تھے۔ ایک عرصے سے وہ عزلت نشیں اور صائم الدہر تھے۔ حج بیت اللہ شریف کے لیے پا پیادہ جایا کرتے تھے، ان کی بزرگی شہرہ سن کر مجھے بھی ان سے ملاقات کا شوق ہوا۔ لہذا میں ایک تاجر کے ہم راہ ان سے ملاقات کو گیا، جب میں نے سلام کیا تو موصوف کی پہلی صفت کریمانہ یہ دیکھی کہ انھوں نے کھڑے ہو کر سلام کا جواب دیا اور اور معانقہ کیا۔ دوران گفتگو میں نے ان سے پوچھا : آپ دائم الصوم کب سے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا : جب سے وارث پاک نے مجھ گناہ گار کا ہاتھ پکڑا ہے تب سے۔ انھیں کی عنایت سے بہت زمانہ گذر گیا اور انھین کی حمایت پر بھروسہ ہے کہ بقیہ زندگی بھی اسی حالت میں گذر جائے گی۔ (22)
مرید وارث شیخ صومی مکی کا روزہ:
مولوی مظفر وارثی جو رئیس امیٹھی اور وکیل بھوپال تھے، بیان کرتے ہیں کہ مکہ معظمہ میں ایک جنازے کی نماز میں شرکت کا اتفاق ہوا، چوں کہ مجمع بہت زیادہ تھا اور اکثر لوگ عقیدت مندانہ صورت سے مضطرب الحال نظر آ رہے تھے، لہذا میں نے اپنے معلم سے دریافت کیا کہ یہ جنازہ کس بزرگ کا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ان کا نام حسن بدوی ہے لیکن چوں کہ یہ صائم الدہر تھے اس وجہ سے ان کا لقب شیخ صومی ہو گیا تھا۔ یہ وارث پاک کے مرید تھے اور کوہ صفا کے قریب ایک حجرے میں رہتے تھے، انھوں نے ایسی زاہدانہ زندگی بسر کی کہ بے طلب جو کچھ آ جاتا اسے اسی دن تقسیم کر دیتے اور اس ضعیف العمری میں بھی طواف کے لیے پیدل آتے تھے۔ (23)
اسلام کا رکن رابع زکاۃ:
زکاۃ 2 ہجری میں فرض ہوئی۔ اسلام میں شروع سے ہی گربا و مساکین کی دست گیری پر مسلمانوں کو خاص طور سے متوجہ کیا جاتا تھا، لیکن کوئی ایسا قاعدہ مقرر نہیں ہوا تھا جس پر بطور آئین عمل کیا جاتا ہو۔ اس لیے دولت مند جو بھی کرتے تھے اپنی فیاضی اور نیک دلی سے کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے زکاۃ کو فرض اور اسلام کا ایک رکن قرار دیا تا کہ اس ضابطے پر پابندی سے عمل ہو سکے۔ قرآن عظیم میں متعدد مقامات پر نماز کے ساتھ اس کا ذکر ہے۔ حدیث پاک میں بھی اس کی بے شمار فضیلتیں بیان کی گئیں ہیں اور اس کے ترک پر وعیدیں بھی وارد ہوئی ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اعظم ﷺ نے ارشاد فرمایا: خشکی و تری میں جو مال تلف ہوتا ہے وہ زکاۃ نہ دینے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ (24)
زکاۃ کے متعلق فرمان وارث:
بڑا بخیل ہے وہ شخص جو زکاۃ نہیں دیتا۔ صدق دل سے جس مال کی زکاۃ دی جاتی ہے خدا اس کا محافظ ہوتا ہے ۔ زکاۃ کی فرضیت کا انکار کفر ہے۔ زکاۃ بڑے نفع کی تجارت ہے، کیوں کہ خدا ایک روپے کے عوض دس روپے اور بعض مواقع پر ستر روپے عطا کرتا ہے۔ (25)

زکاۃ کی انوکھی مثال:
حاجی عباس وارثی، جو پینے پور کے رہنے والے تھے اور وارث پاک کے قدیم ارادت مندوں میں تھے، بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت وارث پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور قدم بوسی کے بعد عرض کی: حضور ! گذشتہ جمعہ کو امام صاحب نے ایسی صفات بیان کیں کہ میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے کہ کاش! میرے پاس پیسے ہوتے تو میں بھی زکاۃ دیتا۔ وارث پاک نے پوچھا: تمھاری زندگی کیسے بسر ہوتی ہے؟ میں نے کہا: پینتے پور کی مسجد میں رہتا ہوں، محلے والے روٹی دے جاتے ہیں اسے کھا لیتا ہوں۔ حضرت نے پوچھا: روٹی زیادہ ہوتی ہے تو کیا کرتے ہو؟ میں نے کہا: دوسرے روز دن میں کھا لیتا ہوں۔ فرمایا: آج سے مغرب تک جو روٹی آئے اسے کھا لیا کرو اور جو بچ جائے یا بعد مغرب آئے اسے خیرات کر دیا کرو۔ اسی کو زکاۃ سمجھو۔ (26)
مرید وارث اور زکاۃ:
منشی تفضل وارثی، جو اُ نّاو کے وکیل تھے، بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ وارث پاک میرے گھر مہمان تھے۔ اسی دوران بعد عصر ایک مقتدر شخص حاضر خدمت ہوئے۔ میں نے حضرت وارث پاک سے عرض کی: حضور! یہ میرے دوست ہیں۔ خدا کے بڑے دیانت دار بندے ہیں۔ اس خوش حالی کے با وجود نہ کھاتے ہیں نہ کھلاتے ہیں۔ خدا کی دی ہوئی دولت کی شب و روز نگرانی کرتے ہین۔ وارث پاک نے ان سے پوچھا: تم سود تو نہین کھاتے؟ آپ کی عنایت سے سود کو حرام جانتا ہوں، زکاۃ پابندی سے ادا نہیں کر پاتا ہوں۔ ارشاد ہوا: شریعت کی پابندی لازم ہے۔ حساب کر کے زکاۃ دیا کرو۔ (27)
اسلام کا رکن خامس حج:
نماز ، روزہ اور زکاۃ کی طرح حج بھی اسلام کا ایک رکن ہے۔ یہ 9 ہجری میں فرض ہوا، اس کی فرضیت قطعی و یقینی ہے۔ جو اس کے فرض ہونے کا انکار کرے وہ کافر ہے۔ اس کی ادائیگی میں تاخیر کرنے والا گناہ گار اور ترک کرنے والا فاسق اور جہنم کا سزاوار ہے۔ پروردگار نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلہِؕ
اور حج اور عمرہ اللّٰہ کےلئے پورا کرو
حدیث پاک میں حج و عمرہ کے فضائل اور اجر و ثواب کے بارے میں بڑی بڑی بشارتیں آئیں ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس نے حج کیا اور حج کے دوران رفث (فحش کلام) اور فسق نہ کیا وہ اس طرح گناہوں سے لوٹا جیسے اسی دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہا تھا۔ (29)
حج کے متعلق فرمان وارث:
حج چند امتحانات کا مجموعہ ہے۔ جو اس مین ثابت قدم رہتا ہے اس کا شمار خدا کے دوستوں مین ہوتا ہے۔ جس نے خلوص و للہیت کے ساتھ حج کیا، اس کا ایمان کامل ہے۔ جس نے خدا کے بھروسے حج کا ارادہ کیا، اس کی مدد غیب سے ہوتی ہے۔ حاجی وہ ہے جس پر حقیقت حج منکشف ہو جائے۔ خانۂ خدا کی زیارت کا شوق تو سبھی کو ہے مگر صاحب خانہ کا متلاشی ہزاروں میں ایک ہوتا ہے۔ کعبہ مقصد زوّار ہے اور دل مہبط انوار ہے۔ (30)
وارث پاک اور عازمین حج:
جناب شیدا وارثی لکھتے ہیں کہ جب کوئی ارادت مند حج بیت اللہ شریف کے لیے حضرت وارث پاک سے اجازت طلب کرتا، حضرت فرماتے: جاؤ یہ کام بھی ضروری ہے۔ کسی سے فرماتے : جاؤ اگر محبت ہے تو ہزاروں کوس پر بھی ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ کبھی یوں فرماتے: جو خدا پر بھروسہ کرتا ہے خدا اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔ کسی سے یہ فرماتے: محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ مطلوب کی راہ میں اگر تکلیف بھی پیش آئے تو اسے راحت سمجھے۔ کسی سے تاکید کے ساتھ یہ حکم ہوتا کہ “طائف بھی جاؤ گے۔” اور کسی سے مخاطب ہو کر یوں فرماتے: حجاج عمرہ لانے میں بہت کوشش کرتے ہیں۔ کسی سے یوں فرماتے: میزاب رحمت کا پانی گناہوں کو دھوتا ہے، اگر بارش ہوتی ہے تو حجاج اس کے نیچے نہاتے ہیں۔ (31)
وارث پاک اور گنبد خضریٰ:
شیدا وارثی لکھتے ہیں: وارث پاک کے پاس جب کوئی مرید آتا اور عرض کرتا کہ حضور! حج کا ارادہ ہے تو آپ اسے یہیں سے حجاز مقدس کی سیاحت کا اشارہ فرمادیتے تھے کہ یہاں خانۂ کعبہ ہے، وہاں گنبد خضریٰ ہے، ادھر کوہ صفا ہے، ادھر مروہ پہاڑی ہے۔ الغرض پورے حجاز کی سیاحت بطور اشارہ یہیں سے کروا دیا کرتے تھے۔ گنبد خضریٰ اور مدینۃ النبی ﷺ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ مریدین سے اکثر یہ فرمایا کرتے تھے کہ “طیبہ کو مستقر بناؤ اور گنبد خضریٰ پر تجلیات انوار الٰہی کا مشاہدہ کرو۔” (32)
یہ تھے اس برگزیدہ ہستی کی “تعلیمات کے درخشاں نقوش” جس پر زمانے کو ناز ہے اور دنیا جسے “وارث پاک” سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ اخیر مین بارگاہ پروردگار کائنات میں دعا ہے کہ مولاے رحیم اپنے حبیب کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کے طفیل ہمیں ان کے ارشادات پر عمل را ہونے کی توفیق رفیق مرحمت فرمائے۔
آمين بجاه النبي الأمي الأمين عليه أفضل الصلاة و أكمل التسليم، و علي آله الطيبين الطاهرين وصحبه نجوم الهداية واليقين و من تبعهم بإحسان إلي يوم الدين.

Advertisement

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s