“ایک حندل ولی دوسرے حندل ولی کے ساتھ ہیں
کڑا اور اجمیر سرکار علیہ السلام کے معجزات ہیںکڑا میں ایک ولی شجع درویش کا آنا ہوا
کر کے گنگا میں غصل مصلی بچھانہ ہوا
تھا خیال کہ شکر خدا بجا لاؤں
بارگاہِ مولی میں اپنا سر جھکاؤںکڑا کا حاکم جو ‘جے چند راٹھور’ تھا
تھا وہ ظالم اور جابر قفر کا نچوڑ تھا
کاٹ کر انگلی درویش کی اس نے یہ کہا
جا یہاں سے اۓ ملچھ آیا یہاں تو کیسے بھلاپھر شجع درویش وہاں سے ہو کر بادیدہ نم
چل دییں جانب وہ شہر حرم
پھر وہاں سے پہنچے وہ دیارے کرم
پر اشک تھی آنکھیں اور سینہ تھا پر درد غمروضہ مصطفیؐ پر درویش نے یوں شکوا کیا
روتے تھیں اور کھتے تھیں کہ اۓ حبیب کبریہ
حاکمِ حند نے کاٹی ہے میری انگلیاں
پڑھنے دی نہ مجھ کو نماز منکر ہے وہ آپکے دین کابولے آقاؐ یہ شجع درویش سے
رو نہی انگلی کٹنے اور قفر کے فریب سے
حند کی سرزمین جو قافروں کے مسکن سے ہے
پرچم اسلام پھیرنا وہاں، قطب الدین میرے فرزند سے ہےسرکارؐ نے پھر بشارت یہ قطب الدینؒ کو دی
اے فرزند من تم ہی تو ہو آفتاب دین
سازگار ہے تم کو کڑا کی سرزمین
پھیرےگا وہاں ھاتوں تیرے پرچم دین مبینمیں محمد مصطفیؐ کرتا ہوں یہ اعلان
تم کو بخشا ولایت حند تم ہو وہاں کے حکمران
پا کر پھر سرکار سے یہ تمغہ نائبی
میر قطب الدین محمد وارد ہوئے ہندستانسرکارؐ کے معجزہ کو حضرت نے ظاہر پھر یوں کیا
دکھلا کر جوہر حرب و ضرب پرچم دین پھیرا دیا
ہو گیا یہ منکشف پھر اہلے حق کے درمیان
سیرت حسنی ہیں قطب الدین بصورت حسینیہ”اجمیر کی داستان کا بھی یہی انوان تھا
حکمران وہاں کا پرتھوی راج چوہان تھا
بھائی تھا خلیرا یہ جے چند راٹھور کا
اور ویسا ہی یہ بھی دشمن اسلام تھاہوتی ہے داستان اسکی کچھ یوں بیاں
قفر شرک کی تھی ہر سمت یہاں رعنائیاں
رسموں قسموں کی اونچی دیوار تھی
بزم حستی میں تھی بڑی کٹھنائیاںہر طرف ظلم کی چھائی ہوئی تھی بدلیاں
مفلسوں کی درد سے گھٹ کیئ تھی سسکیاں
ہوش میں آتا نہی تھا کوئی اہلے ستم
قفل غم میں قید تھی اجمیر کی بستیاںتھا مگر منزور مشیت الاہی کو کچھ اور ہی
اسفہان کے سنجر پر پہنچے ابراہیم درویش دین
باغ میں ایک پہنچ کر رک گیئں اللہ کے ولی
دیکھا اس باغ میں درویش نے ایک نور نبیؐباغ کے مالک تھیں وہ نام تھا معین الدین حسن
تھا حسین چھرا نوری تھا انکا پیراہن
گلِ باغ حسینؑ کے وہ تھیں ایک گلبدن
مہک رہا تھا جن کے دم سے سنجر کا سارا چمندرویش کو دیکھا جو پھر خواجہ معین الدین نے
کھو دیا سب ہوش و خرد دین کے اس معین نے
کر کے استقبال انکا مقصد سارا پا لیا
مال و زر سب صدقہ کیا راہِ خدا عظیم میںکر کے سنجر کو الوداع ہوتے ہوئے سمرقند، بغداد، بخارا
علم دین آخز کیا پھر ہوا یہ اشارہ
کہ جاؤ معین الدینؒ سرزمین ہرون
پیر ے کامل کر رہا ہے انتظار تمہاراحضرت عثمان ہرونیؒ سے پا لیا سب رازو نیاز
پہن کر لباس بہشت ہو گئیں سوزو گداز
بارگاہِ پیر میں پھر سر خم طسلیم کیا
اور جسم پر ہوا آراستہ زیور احرازپہنچے خواجہ پھر وہاں سے شہر حرم
پیر کامل ساتھ تھیں اور لڑکھڑاتے تھے انکے قدم
آئی دیوارِ حرم سے پھر یہ ندا ے غیبیہ
آۓ معین الدین تم ہو مغبول بارگاہ سنمپاکر یہ انعام الاہیہ سجدہ کیا شکر کا ادا
آگے بڑھا پھر یہ قافلہ جانب شہر محبوبِ خدا
روضہ سرکار پر پہنچے جو خواجہ چشتیہ
آواز دی سرکارؐ نے کہ آؤ مہتابِ دین حدادیکر سرکارؐ نے معین الدینؒ کو دولتِ خدمت دین
اور یہ بولے کہ فرزند تم ہو حندل ولی
منتظر جس کی تھی برسوں اجمیر کی وہ سرزمین
جاؤں تم کو ہے دیا میں نے وہاں کی نائبیپاکر پھر سرکارؐ سے یہ تمغہ نائبی
میر معین الدین حسن وارد ہوئے ہندستان
دکھلا کر شان محبت ظاہر کیا معجزہ نبیؐ
اور برسایا یہاں رحمت کی ہر سو جھڑیاہلے حق پر منکشف ان کے یہ درجات ہیں
سیرت حسینؑ ہیں معین الدین بصورت حسنؑ کیا بات ہے
راز تجھ پر ہے کھلا آۓ ‘عاقب’ بوصیلہ چاروں پیر
کڑا اور اجمیر سرکار علیہ السلام کے معجزات ہیں”میر عاقب۔


