Renowned scholarly family of Sindh land(Rashdi family)Religious academic services ofIntroduction of Dargah Sharif Peer Jhando and family and its complete history

Renowned scholarly family of Sindh land
(Rashdi family)
Religious academic services of
Introduction of Dargah Sharif Peer Jhando and family and its complete history

Contributions & biography of Allamah Sayyid Pir Sain IHSANULLAH SHAH RASHDI (fifth Pir saen Jhandewaro)
Who was also known as Sunnat Dhani.
علامہ سید پیر سائیں احسان اللہ شاہ راشدی (پانچویں پیر سائیں جھنڈیوارو صاحب العلم الخامس) کی خدمات اور سوانح حیات۔

(Dargah Sharif Pir Jhando)

سرزمین سندھ کے نامور علمی خانواده
(راشدی خاندان)
کی دینی علمی خدمات-
درگاہ شریف پیر جھنڈ و خاندان کا تعارف-
تجدید احیائے دین وسنت نبوی کے زندہ کرنے کی کوششوں کے سلسلہ میں ہم آپ کی خدمت میں سرزمین سندھ کے ایک ایسے خاندان کی حیثیت سے جو نہ صرف تاریخ اسلام میں بلکہ تاریخ سندھ میں بھی ایک منفرد مقام کا حامل ہے۔ جو بیک وقت مذہبی، روحانی اور عسکری قوتوں کا حسین امتزاج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باقاعدہ تحریک کی صورت میں آج تک زندہ وتابندہ ہے۔ اس خاندان کے فیوضات وانوار کی پہلی کرن آج سے تقریباً ایک ہزار سال بیشتر اس سرزمین پر ضوء فگن ہوئی اور اس وقت سے لیکر آج تک علم وعرفان ،زہد وتقویٰ ، ایثار وقربانی اور عملی جہاد کے چراغ مسلسل روشن کرتی رہی ہے اس خاندان کی داستان کبھی مسجد ومحراب اور مدرسہ کے درودریچہ کے خوشنما نقوش سے مزین دکھائی دیتی ہے اور کبھی شمشیر وسنان اور داردسن کی خونی لکیروں سے منقش نظر آتی ہے یہ خاندان راشدیہ کا وہ جلیل القدر ’’ جھنڈائی خاندان‘‘ ہے جو سید علی لکیاری کے سندھ میں ورود سے لیکر آج تک اس سرزمین میں روشنی کے مینار کی حیثیت رکھتاہے۔ سندھ میں قرآن وحدیث کی دینی اہمیت کو واضح کرنے، مشرکانہ رسومات وبدعات کےخلاف جہاد اور علم کی شمع روشن کرنے میں جھنڈائی خاندان کی مساعی جمیلہ وخدمات کثیرہ ناقابل فراموش ہیں۔ مختصر طور پر اس سلسلہ عالیہ کے اکابرین کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔

پیر جھنڈ و خاندان کی تاریخ کے ساتھ انیسویں اور بیسویں صدی کے کئی اہم تاریخی حقائق وابستہ ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ دیگر حقائق کی تفصیل میں جانے سے قبل گوٹھ پیر جھنڈو کے بابت چند باتیں ذکر کی جائیں

سرز مین سندھ نہایت ہی مردم خیز اور خوش نصیب رہی ہے۔ اس خطے نے وقتا فوقتا جو قومی خادمین، مان لی ، جانباز علماء شعراء اور رہنما پیدا کیے ہیں، وہ نہ صرف اپنے ماحول کی وسعتوں پر اثر انداز ہوئے، بلکہ اکثر وقت گیر انقلابوں کی ابتداء ہی سرزمین سندھ سے ہوئی اور ان کی راہنمائی کے لیے سندھ کے دانشور ہی سرگرم عمل رہے۔ سندھ کا یہ دو گاؤں درگاہ شریف پیر جھنڈو اور پیر جھنڈو ایسے خوش نصیب گاؤں میں سے ہیں، جو ہمیشہ ایسے مجاہدین اور مصلحین کے مراکز رہے ہیں۔ محل وقوع اور ابتدائی حالات: نیو ہالا اور سکرنڈ شہر کے درمیان نیو سعید آباد سے دومیل شمال کی طرف قومی شاہراہ کے مغربی کنارے یہ دو گاؤں آباد ہیں

(پیر جھنڈو جسے ڳوٺ پیر فضل اللہ شاہ بھی کہا جاتا ہے، ) پیر سائیں سید احسان اللہ شاہ راشدی رح کے نانا پیر سائیں سید فضل اللہ شاہ راشدی القب پیر سائیں پاک شھید رح نے قائم کیا تھا۔)

( درگاہ شریف پیر جھنڈو) پیر سائیں علامہ سید احسان اللہ شاہ راشدی رحمت اللہ نے پیر جھنڈو سے ہجرت کر کے اس گاؤں کو قائم کیا جسے (درگاہ شریف پیر جھنڈو) کہا جاتا ہے۔)

(پیر سائیں علامہ سید احسان اللہ شاہ راشدی رحمت اللہ کی اولاد
1.شیخ الاسلام علامہ پیر سائیں سید محب اللہ شاہ راشدی رحمت اللہ
2.شیخ العرب والعجم علامہ پیر سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمت اللہ
پیر سید اعجاز شاہ راشدی رحمت اللہ)

مدرسہ دارالارشاد
ایک اسلامی ادارہ جس نے اسلامی تعلیم میں نمایاں کردار ادا کیا۔ بااثر علماء
بہت سے دوسرے لوگ اس کی حکمرانی اور تدریس میں سرگرم عمل تھے۔ اسلامی ادارہ خطے میں اسلامی مذہبی اور تعلیمی خدمات پیش کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر جانا جاتا تھا۔ بعد ازاں 1937 میں خاندانی اختلافات کی وجہ سے مدرسہ دارالارشاد کو گوٹھ پیر جھنڈو سے نئے آباد ہونے والے گاؤں درگاہ شریف پیر جھنڈو میں منتقل کر دیا گیا۔

جو اب پیر سید محمد یاسین شاہ راشدی حفظہ اللہ کے چھوٹے بھائی پیر سید محمد قاسم شاہ راشدی حفظہ اللہ کے زیر انتظام ہے۔

علامہ پیر سائیں سید محب اللہ شاہ راشدی کے 3 بیٹے ہیں اللہ ان کو صحت اور لمبی عمر عطا فرمائے آمین
1.پیر سید محمد یاسین شاہ راشدی حفظہ اللہ
2.پیر سید محمد راشد شاہ راشدی حفظہ اللہ
3.پیر سید محمد قاسم شاہ راشدی حفظہ اللہ
…………………………………………………………………………
سجادہ نشین درگاہ شریف پیر جھنڈو

(1۔پیر سائیں سید محمد یاسین شاہ راشدی رحمت اللہ ’’ پیر جھنڈہ‘ ‘ والے اول )

(2۔پیر سائیں سید فضل اللہ شاہ راشدی رحمت اللہ ’’پیر جھنڈہ‘ والے دوم)

(3۔پیر سائیں سید رشید الدین شاہ راشدی رحمت اللہ المعروف ’’ پیر سائیں بیعت والے‘‘ پیر جھنڈہ سوم)

(4۔پیر سائیں سید ابو تراب رشد اللہ شاہ راشدی رحمت اللہ
المعروف ’’ پیر سائیں شریعت والے‘‘ پیر جھنڈہ چہارم)

(5۔پیر سائیں علامہ سید احسان اللہ شاہ راشدی رحمت اللہ المعروف ’’ پیر سائیں سنت والے‘‘ (صاحب العلم الخامس)پیر جھنڈہ پنجم )

(6:شیخ الاسلام پیر سائیں علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی رحمت اللہ (صاحب العلم السادس)پیر آف جھنڈہ ششم)

(7:پیر سائیں سید محمد یاسین شاہ راشدی حفظہ اللہ
(صاحب العلم السابع)(پیر آف جھنڈہ ہفتم)

راشدی خاندان کی شاخ ’’ پیر جھنڈا‘‘ کے اکابرین کا اجمالی تعارف :

تجدید احیائے دین وسنت نبوی کے زندہ کرنے کی کوششوں کے سلسلہ میں ہم آپ کی خدمت میں سرزمین سندھ کے ایک ایسے خاندان کی حیثیت سے جو نہ صرف تاریخ اسلام میں بلکہ تاریخ سندھ میں بھی ایک منفرد مقام کا حامل ہے۔ جو بیک وقت مذہبی، روحانی اور عسکری قوتوں کا حسین امتزاج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باقاعدہ تحریک کی صورت میں آج تک زندہ وتابندہ ہے۔ اس خاندان کے فیوضات وانوار کی پہلی کرن آج سے تقریباً ایک ہزار سال بیشتر اس سرزمین پر ضوء فگن ہوئی اور اس وقت سے لیکر آج تک علم وعرفان ،زہد وتقویٰ ، ایثار وقربانی اور عملی جہاد کے چراغ مسلسل روشن کرتی رہی ہے اس خاندان کی داستان کبھی مسجد ومحراب اور مدرسہ کے درودریچہ کے خوشنما نقوش سے مزین دکھائی دیتی ہے اور کبھی شمشیر وسنان اور داردسن کی خونی لکیروں سے منقش نظر آتی ہے یہ خاندان راشدیہ کا وہ جلیل القدر ’’ جھنڈائی خاندان‘‘ ہے جو سید علی لکیاری کے سندھ میں ورود سے لیکر آج تک اس سرزمین میں روشنی کے مینار کی حیثیت رکھتاہے۔ سندھ میں قرآن وحدیث کی دینی اہمیت کو واضح کرنے، مشرکانہ رسومات وبدعات کےخلاف جہاد اور علم کی شمع روشن کرنے میں جھنڈائی خاندان کی مساعی جمیلہ وخدمات کثیرہ ناقابل فراموش ہیں۔ مختصر طور پر اس سلسلہ عالیہ کے اکابرین کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔

1۔پیر سائیں سید محمد یاسین شاہ راشدی ’’ پیر جھنڈہ‘ ‘ والے اول :
آپ 1212ھ میں پیداہوئے ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے والد ماجد سید محمد راشد شاہ رحمہ اللہ سے حاصل کی تکمیل تعلیم کے بعد خدمتِ دین وتبلیغ میں مصروف ہوگئے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں دعوت واصلاح کا کام جاری رکھا آپ کے خاندان یا جماعت میں جو بدعات ، رسومات وخرافات رواج پذیر تھیں ان کی اصلاح قرآن وحدیث کے ذریعہ احسن انداز میں کرتے رہے۔ ( تذکرہ مشاہیر سندھ، جلد 1، صفحہ: 166)

تذکرہ مشاہیر سندھ ، جلد ، 1۔ صفحہ : 267۔268)

2۔پیر سائیں سید فضل اللہ شاہ راشدی ’’پیر جھنڈہ‘‘ والے دوم
سید محمد یاسین شاہ راشدی کی وفات کے بعد ان کے بڑے فرزند پیر سید فضل اللہ شاہ راشدی پیر جھنڈہ دوم کی حیثیت سے سجادہ نشین مقرر ہوئے لیکن خاندانی اختلافات کی وجہ سے شہید کردیئے گئے آپ کی اولاد ایک بیٹی تھی ان سے پیر سائیں سید احسان اللہ شاہ راشدی 5ویں جھنڈے والا پیدا ہوئے۔۔
پیر سائیں سید فضل اللہ شاہ راشدی پیر سائیں سید احسان اللہ شاہ راشدی کے نانا ہیں, راشدی خاندان کا شجرہ ، ص:56)

3۔پیر سائیں سید رشید الدین شاہ راشدی المعروف ’’ پیر سائیں بیعت والے‘‘ پیر جھنڈہ سوم :
سید فضل اللہ شاہ راشدی کی وفات کے بعد 1287ھ میں ان کے بھائی سید رشید الدین شاہ راشدی پیر جھنڈو سوم کی حیثیت سے سجادہ نشین مقرر ہوئے آپ 1254ھ میں پیدا ہوئے سید رشید الدین شاہ راشدی دینی علوم کی تکمیل کے بعد اپنے حلقہ احباب کی اصلاح وتربیت کرکے انہیں شرک وبدعت کے خلاف منظم کیا۔ ان میں توحید وسنت کی بنیاد کو مضبوط ومستحکم کرنے کے لیے ان کی تربیت وتزکیہ نفس کرنا شروع کیا۔ اپنے عقیدت مندوں میں جو شرکیہ افعال اور بدعتی رسومات تھیںان کو ترک کرنےاور جہاد میں شرکت کرنے کے لیے عملی طرح ان سے بیعت لیتے تھے جس کے سبب سے آپ کو ’’پیر سائیں بیعت والے‘‘ کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔ آپ پہلے شخص ہیں جو خاندان راشدیہ جھنڈائی میں جس نے علی الاعلان مسلک اہل حدیث کا اظہار کیا فقہ کے مقابلہ میں حدیث شریف کو اہمیت دی آپ کے مسلک وعقیدہ کے بارے میں مولانا دین محمد وفائی رقمطراز ہیں کہ :

’’ آپ کا مسلک اہل حدیث کے مذہب کے موافق تھا‘‘ (تذکرہ مشاہیر سندھ ، ص: 214، جلد سوم )

مزید لکھتے ہیں ’’ یہ بزرگ اہل حدیث مسلک والوں کے قول کے مطابق اونٹ کے گوشت کھانے کے بعد وضو کرتے تھے ، فوت شدہ بزرگوں سے مدد لینے کے بھی قائل نہ تھے۔ اپنے مریدوں کو بھی منع کرتے تھے……. (أیضا)

1857ء کی جنگ آزادی کے وقت آپ 23 برس کے جوان تھے سندھ کے مسلمانوں نے جنگ آزادی میں بھر پور حصہ لیا جس کے رد عمل میں انگریزوں نے ان پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے اور وحشت ناک سزائیں دیں۔ اس وقت دیندار مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ اسلامی تعلیم وتبلیغ سے اتحاد پیدا کرکے لوگوں میں آزادی کی روح پھونکی جائے ، اور انہیںجہاد کے لیے تیار کیا جائے اسی خیال وفکر سے پیر صاحب نے اپنے گاؤں پیر جھنڈو میں دینی مدرسہ قائم کیا اور ایک علمی کتب خانہ کی بنیاد ڈالی۔ آپ کی علمی مجالس میں کئی علماء کرام شریک ہوتے تھے۔ ان مجالس میں مولانا عبید اللہ سندھی رحمہ اللہ بھی امروٹ شریف(ضلع سکھر) سے آکر شریک ہوتے تھے۔ ( مقالہ ’’پیرجھنڈو کا کتب خانہ ، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی ، ماہنامہ الولی حیدرآباد ، اپریل ، مئی 1978ء) آپ کے متعلق مولانا عبید اللہ سندھی لکھتے ہیں ’’ مولانا سید رشید الدین شاہ صاحب العلم الثالث کی صحبت سے مستفید ہوا میں نے ان کی کرامتیں دیکھیں ذکر اسماء الحسنیٰ میں نے انہیں سے سیکھا وہ دعوت توحید وجہاد کے مجدد تھے۔ ( مولانا عبید اللہ سندھی کی سرگزشت کا بل از مولانا عبید اللہ لغاری ، ص9)

آپ نے 1317ھ میں 61 برس کی عمر میں فوت ہوئے۔

4۔پیر سائیں سید ابو تراب رشد اللہ شاہ راشدی المعروف ’’ پیر سائیں شریعت والے‘‘ پیر جھنڈہ چہارم :
پیر سید رشید الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کا داعی اجل کو لبیک کہنے کے بعد ان کے عالی قدر صاحبزادے سید ابو تراب رشد اللہ شاہ راشدی کی مسند علم وفضیلت کے وارث ہوئے اور پیر جھنڈہ چہارم کی حیثیت سے سجاد نشین مقرر ہوئے۔ پیر رشد اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ صاحب علم وفضیلت اور حامل زہد وتقویٰ تھے۔ آپ کے حفیدسعید علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ’’ جد امجد عالم ربانی محدث حقانی حامی الشریعۃ قامع البدعۃ مرجع العلماء زین الکملاء ابو تراب السید رشد اللہ شاہ الراشدی …… (عقیدئہ توحید اور علماء سلف کی خدمات ، صفحہ : 105)

آپ کی ولادت 1217ھ میں ہوئی تعلیم وتربیت خاص علمی اور دینی ماحول میں ہوئی آپ کے والد ماجد سید رشید الدین شاہ راشدی نے اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کے لیے معقول انتظام کیا ۔ مشہور عالم قاضی عبد الغنی کھڈ ھری (المتوفی 1249ھ) قاضی فتح
آپ نے پوری زندگی اسلام کے لیے وقف کردی آپ کی علمی وادبی خدمات کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ ( ماہنامہ شریعت سکھر سوانح حیات نمبر ، صفحہ : 409)

سید رشد اللہ شاہ راشدی کو سندھ میں علمی پسماندگی کا بڑا احساس تھا اس لیے جب مولانا عبید اللہ سندھی نے مدرسہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی تو شاہ صاحب فوراً تیار ہوگئے چنانچہ آپ نے سندھ کے لوگوں میں قرآن وحدیث کے علم کی اشاعت وتبلیغ کے لیے 1319ھ مطابق 1901ء میں گوٹھ پیر جھنڈہ میں مدرسہ دار الرشاد کی بنیاد رکھی اور عملی مساعی کا آغاز کیا ۔ مولانا عبید اللہ سندھی کو صدر مدرس مقرر فرمایا اور دیگر نامور علماء کرام کی خدمات حاصل کیں۔ مدرسہ کے لیے تمام سرمایہ سید رشد اللہ شاہ صاحب خود فراہم کرتے تھے اور اس کے تمام اخراجات کے کفیل بھی تھے۔ سات برس تک مولانا عبید اللہ سندھی رحمہ اللہ کامل اختیارات کے ساتھ عملی وانتظامی امور کے سربراہ رہے۔ یہ مدرسہ جلد ہی اپنی کامیابی کی منازل طے کرنے لگا اس مدرسہ میں سندھ کے علاوہ ہندوستان ، ایران اور وسطی ایشیا سے طالب علم آتے تھے اور مدرسہ کے ماہر اساتذہ کی تعلیم سے مستفیض ہو کر گوہر نایاب بن کر نکلتے تھے۔ مدرسہ کے معائنے اور سالانہ امتحانات کے موقع پر رفیع المرتبت علماء کرام وفضلاء عظام کو مدعو کیاجاتا۔ جن میں علامہ شیخ محسن انصاری یمانی ، مولانا محمود الحسن دیوبندی ، مولانا سید انور شاہ کاشمیری ، مولانا اشرف علی تھانوی ڈاکٹر ضیاء الرحمن احمد وائس چانسلر علی گڑھ یونیورسٹی وغیرہم شامل ہیں۔ مدرسہ دار الرشاد کی بدولت اقلیم سندھ میں شمع علم فروزاں ہوئی جس کی کرنوں نے چار دانگ عالم کو منور کیا اس کے خوش نصیب طلباء کرام نے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد خود مسند علم وفضیلت آراستہ کیں ، مدرسہ دار الرشاد سے جو فضلاء فارغ التحصیل ہوکر مسند علم وفضل کے وارث ہوئے ان میں مفسر قرآن مولانا احمد علی انصاری، مولانا امید علی سندھی ،پیر سید احسان اللہ شاہ راشدی (صاحب العلم الخامس) مولانا سید عبد اللہ سربازی ،سید ضیاء الدین شاہ راشدی, مولانا عبد اللہ لغاری سندھی ، مولانا اکرم انصاری ہالائی ، مفتی عبد القادر سندھی وغیرہم ج ( مدرسہ دار الرشاد پیر جھنڈو، مضمون نگار مولانا عبد القادر لغاری ماہنامہ ’’الرحیم‘‘ حیدرآباد سالی 1965ء سندھ کی اسلامی درسگاہیں از

درگاہ شریف پیر جھنڈو کا کتب خانہ ایک تعارف
خانوادہ راشدی کی وہ اہم خصوصیات جس نے اس خانوادہ عالی مرتبت کو سندھ کے دیگر خاندانوں سے ممتاز کیا ان کا پیش قیمت خزانہ علم وحکمت یعنی کتب خانہ ہے۔ اس خاندان میں کتابیں جمع کرنے کی ابتداء سید محمد بقا شاہ لکیاری شہید رحمہ اللہ سے ہوئی جو خاندان راشدیہ کے مؤسس اعلیٰ سید محمد راشد شاہ رحمہ اللہ کے والد گرامی تھے۔ موصوف نے مختلف جگہوں سے کمیاب ونادر مخطوطات کو حاصل کرکے اپنے کتب خانہ کی زینت بنایا ذخیرہ کتب میں اضافہ کیا۔ ذخیرہ کتب کا از حد شوق تھا اور اس شوق کی تکمیل کے لیے آئے دن مختلف مقامات کا دورہ کیا کرتے تھے۔ مشہورواقعہ ہے کہ ایک مرتبہ چند کتابیں باندھ کر کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں ڈاکؤوں نے کتابوں کے اس گٹھے کو مال سمجھ کر لوٹ لیا اور آپ کو بڑی سفاکی سے شہید کر دیا ۔ سید بقا شاہ لکیاری کی شہادت کے بعد یہ کتب خانہ علمیہ کا مختصر خزانہ سید محمد راشد شاہ کی تحویل میں آیا ان کے دور میں کوئی خاص وخاطر خواہ اضافہ نہ ہوا لیکن انہوں نے ان کتابوں کو بڑی ذمہ داری سے حفاظت فرمائی ۔ سید محمد راشد شاہ رحمہ اللہ کی وفات کے بعد یہ کتب خانہ دو حصوں میں منقسم ہوگیا ایک حصہ پیر پگاڑہ اول سید صبغتاللہ شاہ راشدی کی ملکیت میں آیا اور دوسرا حصہ صاحب العلم الاول (پیر جھنڈہ اول) سید محمد یاسین شاہ راشدی کے زیر تحویل آیا۔ ان دونوں بھائیوں نے اپنے اپنے کتب خانہ کی خوب حفاظت کی اور اس خزانہ علمیہ میں خاطر خواہ اضافہ بھی کیا۔ پیر سید محمد یاسین شاہ راشدی سے کتب خانہ نسل در نسل منتقل ہوتا ہوا صاحب العلم الرابع سید ابو تراب رشد اللہ شاہ راشدی کی تحویل میں آیا۔ سید رشد اللہ شاہ کا دور کتب خانہ کے لیے زرین دور تھا۔ ( اصحاب علم وفضل ، محمد تنزیل الصدیقی الحسینی ، صفحہ : 37۔38)

موصوف نے کتب خانہ میں توسیع کی اور نہایت علمی کتابیں جمع کیں۔ مختلف ممالک سے نادر ونایاب کتابیں خریدیں اور نقل کر جمع کیں ۔ آپ 1323ھ میں جب حج بیت اللہ کی ادائیگی کی غرض سے حرمین شریفین گئے تو اس سفر شوق میں قاضی فتح محمد نظامانی رحمہ اللہ اور مولوی عنایت اللہ بھی شریک تھے جن کا کام مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ کے کتب خانوں سے حدیث کے فن کی منتخب کتابیں نقل کرنا اور نوادرات کی تلاش تھا۔ مولوی عنایت اللہ بیان کرتے ہیں کہ قیام مکہ معظمہ کے دوران کسی مکتبے میں امام محمد بن علی شوکانی رحمہ اللہ کی ارشاد الفحول کا قلمی نسخہ ہماری نظر سے گزرا مالک مکتبہ سے قیمت دریافت کی گئی تو اس نے دو سو روپے بتائی۔ شاہ صاحب کو جب علم ہوا تو آپ نے اسی قیمت گراں پر اس کتاب کے خریدنے کا حکم دیا۔ بالآخر اسے دو سو روپے میں خریدا گیا۔ بعد ازاں یہ کتاب جب طبع ہوکر آئی تو اس کی قیمت صرف دو روپے تھی اسی طرح بمبئی اور حیدرآباد دکن کی طرف اپنے خاص کاتب بھیج کر مشہور ونادر کتابیں خریدیں اور نقل کروائیں۔ مولانا زین العابدین آروں کے کتب خانہ سے ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا مخطوطہ السنن الکبری للبیہقی دس جلدیں خریدیں سندھ کے قدیم وتاریخی کتب خانہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی رحمہ اللہ کی کتابیں اور سہون کے قدیم کتب خانہ کی کتابیں لا کر جمع کیں ۔ چند سالوں میں پیر جھنڈہ کے کتب خانہ نے وہ شہرت حاصل کی کہ دوردراز کے اسلامی ممالک کے علماء اور دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن والوں نے بھی اس علمی وشہرت یافتہ لائبریری
اسی کتب خانہ علمیہ کے متعلق مخدوم امیر احمد فرخ آبادی اپنے ایک مضمون ’’ سندھ کے دینی کتب خانوں میں سے کتب خانہ پیر رشد اللہ شاہ سندھ ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ یہ کتب خانہ درگاہ شریف پیر جھنڈو واقع مٹیاری سندھ میں ہے پیر صاحب نے یہ کتب خانہ چودھویں صدی ہجری کی ابتداء میں قائم کیا انہوں نے اس کتب خانہ پر بے پناہ روپیہ خرچ کیا لندن کی لائبریری انڈیا آفس سے کتابوں کی فوٹو کاپیاں منگوائیں ترکی اور مصر کے کتب خانوں سے نایاب ونادر کتابوں کی نقلیں اپنے اخراجات پر کاتب بھیج کر کرائیں۔ قدیم کتب خانوں کو گرانمایہ سرمایہ سے خرید کر شامل کیے اور اسی طرح اس کتب خانہ میں نوادرات کا ایک ذخیرہ جمع ہے۔ ( سہ ماہی الزبیر بہاولپور 1967ء ، صفحہ : 202 بحوالہ اصحاب علم وفضل ، صفحہ : 39)

کتب خانہ راشدیہ کے متعلق حافظ محمد نعیم کراچی والے کا ایک تفصیلی مضمون ہفت روزہ الاعتصام لاہور میں تین اقساط پر محتوی ہے اور نہایت قیمتی معلومات پر مشتمل ہے جو طباعت پذیر ہوچکاہے۔ ( ملاحظہ ہو : الاعتصام 7۔14۔21مارچ 2003ء)

سید ابو تراب رشد اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے تحریک خلافت میں بھی بھر پور حصہ لیا۔ فروری 1920ء میں لاڑکانہ کی خلافت کانفرنس جس میں مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا عبد الجبار فرنگی، مولانا شوکت علی شریک ہوئے تھے۔ اس کانفرنس کی صدارت سید رشد اللہ شاہ راشدی نے کی تھی آپ کا صدارتی خطاب تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتاہے اس سلسلہ میں آپ کو پابند سلاسل بھی کیاگیا۔ لیکن آپ اپنے عزم وارادہ پر مستمر رہے۔ (کلام رشد اللہ شاہ ، ڈاکٹر سید صالح محمد شاہ بخاری ، صفحہ : 36۔37، سہ ماہی مہران تحریک آزادی نمبر شمارہ 1۔2۔1975ء)

تحریک خلافت میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا جس کی وجہ سے آپ کو پیر صاحب خلافت والے کہا جانے لگا علامہ سید رشد اللہ راشدی کو مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ اپنے مطالعہ اور معلومات کوعوام الناس تک پہنچانے کے لیے مختلف علوم وفنون پر سندھی، اردو، عربی اور فارسی میں 70 کے قریب کتابیں تصنیف کیں۔ یہ کتابیں آپ کے ورثاء کے پاس موجود کتب خانے میں محفوظ ہیں۔

اقلیم سندھ کے اس جلیل القدر محدث وسیع النظر والظرف محقق اور کثیر المطالعہ عالم ومجاہد ، 6 شعبان 1340ھ مطابق 23اپریل 1923ء کو وفات پائی۔

5۔پیر سائیں سید احسان اللہ شاہ راشدی المعروف ’’ پیر سائیں سنت والے‘‘ (صاحب العلم الخامس)پیر جھنڈہ پنجم :
سید رشد اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد آپ کے فرزند ارجمند سید فضل اللہ شاہ عرف احسان اللہ شاہ راشدی پیر جھنڈہ پنجم کی حیثیت سے اپنے خاندانی سجادگی کی مسند عالیہ پر مقرر کیاگیا۔ موصوف سید رشد اللہ شاہ کے چھوٹے صاحبزادے تھے۔ 27 رجب 1313ھ میں پیدا ہوئے آپ نے اپنے آبائی مدرسہ دار الرشاد میں جید اساتذہ کرام مولانا عبید اللہ سندھی ، مولانا محمد مدنی ، مولانا اللہ بخش، مولانا احمد علی لاہوری ، مولوی خدا بخش اور مولانا محمد اکرم انصاری ھاائی جیسے اصحاب سے تعلیم حاصل کی۔ دینی علوم کی تکمیل کے بعد آپ نے خاندانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے۔ قرآن وحدیث کی خدمت کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس میں ایک نئی روح بھی پھونکی آپ کا حلقہ احباب نہایت وسیع تھا۔ ہندوستان بلکہ اس سے باہر کے کئی علماء سے تعلق خاص تھا خصوصاً سلطان ابن سعود رحمہ اللہ سے خاص دوستی اور خط وکتابت رہتی تھی۔ ماہنامہ شریعت سکھر سوانح نمبر ، صفحہ : 413، مہران سوانح نمبر ، صفحہ : 153 )
پیر رشد اللہ شاہ کی وفات کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے سید ضیاء الدین شاہ اور سید احسان اللہ شاہ کے درمیان قدرے سجادہ نشینی پر اختلاف ہوا۔ جماعت اور برادری کے احباب نے سید احسان اللہ شاہ کی دستار بندی کروائی۔ ان میں پیر صدیق الرسول شاہ اور ان کی اولاد، پیر رشد اللہ شاہ کے بھائی پیر محبوب شاہ اور پیر اسماعیل شاہ بھی شامل تھے۔ لیکن افسوس معاملہ عدالتوں تک پہنچا۔ طویل مقدمہ بازیوں کے بعد ۱۹۳۷ء میں پریوی کا ڈنسل لندن نے پیر ضیاء الدین شاہ کے حق میں فیصلہ صادر فرمایا۔ اس لئے پیر احسان اللہ شاہ نے گوٹھ پیر جھنڈو کو چھوڑ کر قریب ہی

ایک نیا گاؤں درگاہ شریف ” کے نام سے قائم کیا۔

سید احسان اللہ شاہ اپنے دور کے جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ پیکر صلاح وتقویٰ بزرگ بھی تھے اور بدرجہ غایت متبع سنت تھے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت اور انتہائی اتباع کی وجہ سے لوگوں میں آپ ’’ پیر سائیں سنت والے‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ ان کے بارے میں خود ان کے بڑے صاحبزادے علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی بیان کرتے ہیں کہ ان کی تیسری شادی ہمارے سامنے ہوئی شادی کے لیے ایک بہت بڑے پیر سید محبوب اللہ شاہ راشدی کو پیغام پہنچایاگیا جو حنفی المذہب تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگر تم رفع الیدین کرنا چھوڑ دو تو میں اپنی بیٹی تمہارے نکاح میں دینے کو تیار ہوں۔ انہوں نے اس کے جواب میں کہلوا بھیجا کہ میں ایک عورت کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ترک نہیں کرسکتا یہ ایک عورت کا معاملہ ہے میں ہزار عورتوں کو بھی اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر قربان کر سکتاہوں ۔ ( کاروان سلف ، محمد اسحاق بھٹی ، صفحہ : 385، مہران سوانح نمبر ، صفحہ : 154، ماہنامہ صراط مستقیم کراچی ، مارچ 1995ء ، صفحہ : 27)

علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی اپنے والد ماجد سید احسان اللہ شاہ راشدی کے متعلق ایک اور واقعہ میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ ایک مرتبہ ہمارے والد صاحب اپنے جماعتی رفقاء کے ساتھ حیدرآباد سندھ ریلوے اسٹیشن پر بیٹھے ٹرین کا انتظار کر رہے تھے کہ انگریزی لباس میں ملبوس ایک داڑھی منڈے صاحب آرہے تھے اور انہوں نے والد صاحب کی طرف مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا ، آپ ( والد ماجد) اسی طرح بیٹھے بیٹھے ان کی طرف ہاتھ کیا اور مصافحہ کیا ساتھیوںمیں سے کسی نے کہا پیر سائیں یہ سید غلام مرتضی شاہ ( جی ایم سید) ہیں۔ علاقہ کے مشہور پیر ہیں وڈیرے ہیں۔ ان کے ساتھ کھڑے ہوکر مصافحہ کرنا چاہیے تھا تو آپ اسی وقت ان کے سامنے ہی جواب دیا ہمیں کیا معلوم کہ یہ سید ہیں یا ہندؤوں کی کسی ماڈرن فیملی سے تعلق رکھتے ہیں ان کی وضع وقطع کوئی اسلامی نمونہ پیش نہیں کرتی اور پتا نہیں چلتا کہ یہ بھی سید ہیں ۔ جی ایم سید بولے سائیں کیا کریں اپنے کام کاج کے لیے انگریزوں سے ملنا جلنا پڑتا ہے ان کے سامنے اگر وضع قطع کا اسلامی نمونہ پیش کریں تو وہ عزت نہیں کرتے اور کوئی کام بھی نہیں کرتے۔ جواب دیا میری وضع قطع آپ کے سامنے ہے دونوں انگریز حاکم کے دفتر میں چلتے ہیں اور اس سے جاکر ملاقات کے لیے وقت طلب کرتے ہیں دیکھتے ہیں کہ وہ پہلے آپ سے ملاقات کرتاہے یا مجھ سے ۔ فرمایا عزت اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ہے نہ کہ غیروں کا رنگ ڈھنگ اختیار کرنے میں ۔ جی ایم سید نے ان کی اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی اختیار کر لی ( ایضاً)

سید احسان اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ علوم دینیہ کے جامع اور احیائے سنن میں بہت زیادہ داعی تھے۔ علم رجال پر آپ کی نہ صرف خاص نظر تھی بلکہ اس فن میں کمال بھی حاصل تھا ۔ مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امر تسری رحمہ اللہ نے آپ کے پاس آکر چند دن قیام کیا تھا۔ اپنے قیام کے دوران شاہ صاحب سے رجال کے متعلق کافی گفتگو ہوئی۔ مولانا صاحب جب واپس ہوئے تو فرمایا کہ ’’ آج اگر کوئی اسماء الرجال کا امام ہے تو پیر احسان اللہ شاہ راشدی ہے ‘‘ ۔(ماہنامہ شریعت سکھر سوانح نمبر ، صفحہ : 414)

سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ موصوف کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’ مرحوم حدیث ورجال کے بڑ ےعالم تھے ….. ایک خانقاہ کے سجادہ نشین تھے اور طریق سلف کے متبع اور علم وعمل دونوں میں ممتاز تھے ‘‘۔ ( یادرفتگاں ، صفحہ : 186)

آپ بھی اپنے اکابرین کی طرح کتابوں کے شائق ہی نہیں بلکہ حریص تھے نادر قلمی کتابوں کے حصول میں ہر دم کوشاں رہتے تھے۔ ملک اور بیرون ملک کے اہل علم سے کتابوں کے سلسلے میں خط وکتابت رہتی تھی ۔ آپ نے خاندانی مدرسہ دار الرشاد اور مکتبہ پر خاص توجہ دی۔ علم حدیث ودیگر علوم سے اتنا گہرا لگاؤ تھا کہ کئی ممالک مثلاً شام ، مصر، مدینہ منورہ ، مکہ مکرمہ اور ہندوستان کے کئی شہروں سے زر کثیر خرچ کرکے نایات کتابیں نقل کروائیں۔ اپنے خاص کاتب قاضی لعل محمد اور مولانا قطب الدین ہالیجوی کو حیدرآباد دکن بھیج کر نواب عثمان علی خان کے کتب خانہ سے کئی کتابیں نقل کروائیں۔ آپ دائرۃ المعارف العثمانیہ دکن کے اراکین میں سے تھے۔ مکتبہ دائرۃ المعارف سے جو بھی کتاب چھپتی تھی وہ آپ کے کتب خانہ عالیہ علمیہ میں بطور اعزازی طورپر ملتی تھی۔ دائرۃ المعارف العثمانیہ دکن والوں نے جب پہلی مرتبہ السنن الکبری للبیہقی اور مستدرک حاکم طبع کروائیں تو اس وقت ان کے پیش نظر جو قلمی نسخے تھے۔ ان میں سے ایک نسخہ پیر احسان اللہ شاہ راشدی کے مکتبہ کا تھا۔ جیسا کہ انہوں نے دونوں مطبوعہ کتابوں میں ان قلمی نسخوں کے ذکر میں صراحت سے تحریر کیا ہے۔ آپ کے علمی ذوق کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ تاریخ بغداد جو ابھی چھپی ہی نہیں تھی آپ نے 1928ء میں دار الکتب المصریہ قاھرہ سے 15۔16 سو روپے خرچ کرکے اس کا فوٹو اسٹیٹ حاصل کیا جوکہ کافی عرصہ کے بعد طبع ہوئی۔ امام ابو نعیم اصبھانی کی تاریخ اصفھان کا فوٹو اسٹیٹ انڈیا آفس لائبریری لندن سے ڈاکٹر کرنکو لائبریرین کی معرفت سے حاصل کیا ۔ کرنکو کی وساطت سے جرمنی حکومت سے صحیح ابن خزیمہ اور دوسری تفاسیر کے لیے بھی کوشاں رہے لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ بہر حال کتب خانہ میں نادر ونایاب کتب کا بڑا ذخیرہ جمع کیا آپ نے مدرسہ دار الرشاد کی ترویج وترقی میں بھی خصوصی دلچسپی لی ۔ آپ کے دور میں ملک کے چپے چپے سے طلبہ آکر کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کی۔ ( سہ ماہی مہران سوانح نمبر ، صفحہ : 154، مضمون ’’سید احسان اللہ شاہ راشدی از پروفیسر مولانا بخش محمدی ماہنامہ ترجمان الحدیث لاہور1987ء)

سعودی حکومت کے پہلے فرمانروا شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ کے خلاف برصغیر میں جب مخالفین نے قبوں اور مزاروں کے انہدام کے مسئلہ پرشور برپا کیا تو اس وقت سید احسان اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے سلطان موصوف کے موقف کی حمایت میں ایک مختصر مگر جامع اور دلائل سے بھر پور سندھی زبان میں مضمون قلم بند کیا۔ اور سندھ کے مختلف علاقوں میں تقسیم کیاگیا جس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے۔ ( تذکرئہ علماء اہل حدیث مرتب پروفیسر محمد یوسف سجاد ، صفحہ : 162، جلد 2)

اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی تصنیف وتالیف کا خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا آپ اخیر عمر میں حدیث کی مشہور ومعروف کتاب سنن ابن ماجہ کی ایک جامع ومانع شرح بنام ’’خیمۃ الزجاجۃ‘‘ لکھ رہے تھے اور بیمار پڑ گئے اتنی فرصت نہ مل سکی کہ آپ اس شرح کو مکمل کرسکیں علم وعمل کے اس پیکر نے صرف 45 برس کی عمر میں 15 شعبان 1358ھ مطابق 13 اکتوبر 1938ھ کو وفات پائی۔

6:پیر سائیں علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی (صاحب العلم السادس)پیر آف جھنڈہ ششم:
سید احسان اللہ شاہ راشدی کو اللہ تعالیٰ نے تین بیٹے عطا کیے تھے ان کی وفات کے بعد ان کے سب سے بڑے بیٹے علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی کو پیر جھنڈا ششم کی حیثیت سے خاندانی سجادگی کے منصب پر فائز کیاگیا ۔ آپ کی ولادت گوٹھ پی جھنڈو نیو سعید آباد ضلع حیدرآباد سندھ میں مؤرخہ 2 اکتوبر 1921 مطابق 29 محرم الحرام 1325ھ میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے مدرسہ دار الرشاد میں حاصل کی جو ان کے والد سید احسان اللہ شاہ راشدی کی نگرانی میں جاری تھا آپ کے مشہور اساتذہ میں حافظ محمد متوہ ، مولانا ولی محمد کیریو، مولانا محمد اسحاق افغانی ، مولانا عبد الوھاب، مولانا حمید الدین ، مولانا محمد اکرم ہالائی انصاری، مولانا عبید اللہ سندھی ، مولانا محمد مدنی ، مولانا محمد خلیل ، مولانا عبد الحق بہاولپوری ہاشمی مدنی ، مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی ، مولانا عطاء اللہ حنیف اور آپ کے والد ماجد سید احسان اللہ شاہ راشدی رحمہم اللہ علیہم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے سندھ یونیورسٹی جام شورو حیدرآباد سے فاضل عربی اور شعبہ ثقافت اسلامی وتقابل ادیان میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد آپ درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ میں مصروف ہوگئے۔ مدرسہ دار الرشاد کے ساتھ اور ینٹیل کالج قائم کیا جو سندھ یونیورسٹی کے ماتحت آٹھ برس تک چلتارہا۔ آپ کو بھی اپنے خاندان کے اسلاف کی طرح کتابیں جمع کرنے کا بے حد شوق تھا۔ اپنے خاندانی کتب خانہ کی توسیع وترقی میں خوب حصہ لیا۔ نادر ونایاب کتابوں کے حصول میں زر کثیر خرچ کیا اور آبائی کتب خانہ میں مختلف علوم وفنون کے ہزاروں مخطوطہ ومطبوعہ کتابوں کا اضافہ کیا۔ آپ نے کتابوں کے حصول کے لیے امرتسر اور دہلی کے سفر کئے۔ ترکی کے علمی مرکز استنبول، برطانیہ کے اسفار اور حج کے متعدد مواقع پر زیادہ وقت کتابوں کی تلاش وحصول میں مصروف رہے۔ اس لیے آپ کا کتب خانہ المکتبۃ العلمیہ آج بھی ہزاروں مطبوعات ومخطوطات کا خزینہ تسلیم کیاجاتاہے۔ کتابیں جمع کرنے کے ساتھ ساتھ باقاعدہ مطالعہ وتحقیق میں بھی مصروف رہتے تھے۔ آب کو علم تفسیر،حدیث،فقہ،فن رجال، فلسفہ،تاریخ اصول عربی،ادبیات وغیرہ علوم پر گہری نظر وعبور حاصل تھا۔ فن خطابت وتدریس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تصنیف وتالیف کا خصوصی ملکہ عطا کیا تھا۔ علوم حدیث سے قلبی لگاؤ تھا۔ آپ نے عربی ،اردو اور سندھی زبان میں 60 سے زیادہ کتابیں تصنیف فرمائیں۔ ان کے علاوہ متعدد تحقیقی وعلمی مقالات ومضامین اور فتاویٰ جات تحریر فرمائے۔ علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے 19 شعبان 1415ھ مطابق 21 جنوری 1995ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ کی نماز جنازہ آپ کے چھوٹے بھائی اپنے وقت کے مجدد اور امام علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی نے پڑھائی۔ ( کاروان سلف محمد اسحاق بھٹی ، صفحہ : 379، مقدمہ بدیع التفاسیر ، پیش لفظ از پروفیسر محمد جمن کنبھر ، صفحہ: 23، اصحاب علم وفضل از محمد تنزیل الصدیقی ، صفحہ : 43 ، ماہنامہ دعوت اہل حدیث حیدر آباد سندھ۔ اگست 2004ء)

7:پیر سائیں سید محمد یاسین شاہ راشدی حفظہ اللہ پیر آف جھنڈہ ہفتم, ساتویں جھنڈے والا :
علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی کی وفات کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے سید محمد یاسین شاہ راشدی کو خاندانی رسوم ورواج کے مطابق راشدی خاندان کی شاخ جھنڈائی کی سجادگی کیلئے مؤرخہ 22 شعبان 1415ھ کو علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی ودیگر اکابرین خاندان، معززین اور معتقدین ومریدین نے سب کے اتفاق سے پیر جھنڈہ ہفتم کی حیثیت سے سجادہ نشین مقرر کیاگیا اور دستار پہنائی گئی آپ راشدی خاندان کی شاخ پیر جھنڈہ خاندان کے موجودہ سجادہ نشین ہیں ۔
آپ شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمت اللہ کے داماد ہیں۔
آپکا مخدوم محمد امین فہیم کے ساتھ سے گہرا تعلق تھا،آپ سیاسی سماجی مذهبی شخصیت ہین انہوں نے اپنی جماعت کے لیے بہت کام کیا، اللہ انہیں لمبی زندگی اور صحت مند زندگی عطا فرمائے آمین

( خزینۃ المعرفت (ملفوظات) بحوالہ تذکرہ مشاہیر سندھ مولانا دین محمد وفائی ، ص : 108 ، جلد : 2)

مراجع مصادر
1۔ تذکرہ مشاہیر سندھ (کامل) مولانا دین محمد وفائی ۔ سندھی ادبی بورڈ حیدرآباد

2۔ سہ ماہی مہران ، سوانح نمبر ۔ شمارہ 3۔4۔1957ء

3۔ ماہنامہ شریعت سکھر ۔سوانح نمبر ۔ سال 1981ء

4۔ تذکرہ علماء اہل حدیث جلد نمبر 2 محمد یوسف سجاد ۔ جامعہ ابراہیمیہ سیالکوٹ

5۔ رموز راشدیہ ۔ ترتیب عبد الرحمن میمن ۔ مکتبہ الدعوۃ السلفیہ مٹیاری ضلع حیدرآباد

6۔ مقدمہ بدیع التفاسیر ۔ پیش لفظ ۔محمد جمن کنبھر۔ جمعیت اہل حدیث سندھ

7۔ ماہنامہ۔ الرحیم حیدرآباد ۔سوانح نمبر ۔

8۔ سہ ماہی مہران ، تحریک آزادی نمبر ۔ سال 1985ء سندھی ادبی بورڈ حیدرآباد

9۔ سندھ کی اسلامی درسگاہیں ۔ محمد جمن ٹالپر ۔طبع حیدرآباد۔ 1982ء

10۔ کلام رشد اللہ شاہ (پیر جھنڈے والے) ڈاکٹر محمد صالح شاہ بخاری۔ سندھی ادبی بورڈ

11۔ماہنامہ صراط مستقیم کراچی شمارہ ، جولائی 1994ء مارچ 1995ء

25۔ سخن اعجاز ۔ کلام پیر سید محی الدین شاہ عرف اعجاز شاہ سکرنڈ

13۔ مولانا عبید اللہ سندھی کی سرگذشت کابل ، مولانا عبد اللہ لغاری ،دار الکتاب لاہور