Hazrat Haji Sayyah Sarwar e Makhdoom Syed Saeedoddin Rifai Rahmatullah Alaih Qandhari

a882311d-270c-4cc4-8237-f7b74faf987f

Malfuzat-i-Sarwari and Tarikh-i-Kandhar gives the historica information
of Hazrat Haji Sayyah Saidoddin Sarwar Maqdoom.169 Under the study of
geneology of Sarwar Maqdoom, and find that spiritual and familiar
relation to him from 26th as a Sake to Hazrat Imam Hussain Rajallaanh.
Imam Husain was the son of Fatima, the daughter of Prophet Muhammad.
The geneology as described by Amir Hamza in his book has been usefull
to study this Sufi saint from Kandhar.170
Most of the Sufis of Deccan and Bidar Gulbarga Bijapur Khuldabad
area who migrated to the city from the mid fourteenth centuty, belonged to
the Chishti, the Qadari or the Rafai silsilas, which had already undergone
considerable development in various parts of the Indian Subcontinent
before becoming significant in Kandhar.171 Hazdrat Saidoddin Sarwar
Maqdoom was the successor (Khalifa) of his father, Hazrat Sayyad Sarwar
Ibrahim Nizamuddin Rafai.172 He was also benefitted by the spiritual
training of Shahikh Nizam ud Din Auliya in Delhi. After the death of
Shaikh Nizam ud Din Auliya in 1324, his murids spread all over India
from Delhi.173
Originally the family of Hazrat Sarwar Maqdoom came from the
town of Basra in Iraq. Hazrat Sarwar Maqdoom had the hobby of travellin
to major cities having Islamic importance. Hency, he was known by the
name ‘Sayyah’ (literally meaning the traveler).174 He was also a pilgrim
of Mecca and Medina in Arabia. He came to Delhi and become a disciple
of Shaikh Nizam ud Din Auliya.175 After that, he came to Kandhar Deccan
at 1325 AD. His Tariqah was known as Qadiriya Rafaiya. The Rafaiya Tariqa or silsila came from the northern part of Indian sub continent and
had originated from the famous Sufi saint Shaikh Hazrat Saiyyad Ahmed
Kabir Rafai Rahamtullahalai.176 Sarwar Maqdoom had died on 17th Rajjab
736 AH and was buried in at Badi Dargah. This badi Dargah originally
was s typical structure with square or octagonal base supporting a dome.177
After the inthakhal of Hazrat Sarwar Maqdoom, his two sons came to
Tariqah of Rafai Qadiriya silsila.

🌺مختصر سوانح حیات قطب الاقطاب سعید الدین رفاعیؓ سرور مخدوم قندھاری🌺

👈حضرت حاجی سیاح سرور مخدوم سید سعید الدین رفاعیؓ حسینی سادات سے ہیں آپ کا سلسلہ پدری چھ واسطوں سے ایک روایت کے مطابق سات واسطوں سے برہان العارفین سلطان سید احمد کبیر رفاعیؓ تک پپہنچتا ہے۔نسب مادر ۱۲ واسطوں سے امیرالمومنین عمر بن خطابؓ تک پہنچتا ہے۔
آپکے والد کا نام سید ابراہیم نجم الدینؓ تھا۔آپکی والدہ کا نام بی بی فاطمہ تھا آپ شیخ الاسلام با با فرید الدین گنج شکرؓ کی لخت جگر تھی۔اس لحاظ سے آپ بابا فرید گنج شکرؓ کے نواسے ہوتے ہے۔

🌷شکر گنجؓ آپ کے نانا,رفاعیؓ آپکے دادا,
علیؑ کے لعل, آل مصطفیٰ ﷺ مخدوم قندھار ی🌷

👈سرور مخدومؒ کے آباء و اجداد عراق کے رہنے والے تھے۔سرور مخدومؒ نے مختلف ممالک کی سیر کی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں عرصہ تک قیام کیا,پھر ہندوستان تشریف لائے اور دہلی میں اقامت اختیار کرلی۔آپؒ عرصہ دراز تک محبوب الہیٰؓ کی خدمت میں رہے اور نظام الدین اولیاء کے فیض صحبت میں علوم ظاہر کے علاوہ علوم باطن سے بھی بہرہ ور ہوئے ۔

🔰بیعت و خلافت:-
آپؒ اپنے والدؒ کے مرید اور خلیفہ تھے۔جیسا کہ “مشاہیر قندہار” (مولفہ محمد اکبر الدین صدیقی ) میں اسکا ذکر ہے۔آپؒ کو بارگاہ محبوب الہیٰ سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی۔

❇️مجدد و مجتہد آئین حزب اللّٰہ حضرت سید اسمعیل عرف ذبیح اللّٰہ شاہ حسنی الحسینیؒ نے اپنی تصنیف لطیف “آئین حزب اللّٰہ ” میں حضرت سرکار سرور مخدوم ؒ کا فیضان محبوب الہٰی سے مستفیض ہونے کا ذکر کیا ہے۔
👈ایک روز سلطآن المشائخ محبوب الہٰی قدس اللّٰہ سرہ مجلس میں وعظ فرما رہے تھے کہ آپکی محفل منزل فیض میں سخاوت کا اسطرح ذکر آیا کہ حضور غوث اعظمؓ ایک روز یاد الہٰی میں بیٹھے تھے کسی نے کہا کہ حاتم طائی بڑا سخی تھا۔حضور غوث الاعظمؓ نے خلیفہ سے ارشاد فرمایا کہ شہر بغداد میں جتنے فاسق و بدکار ہوں حاضر کرو۔صبح خلیفہ وقت نے یہ سب لوگوں کو حاضر کیا۔وہ سب قطار سے حسب فرمان کھڑے کئے گئے آپؓ گھوڑے پر سوار ہوکر ما بین صف ہائے ایستادہ گھوڑا چلائے اور فرمایا کہ ادہر کے ابدال ادہر کے قطب(سبحان اللّٰہ ) یہ سخاوت ہے۔یہ تذکرہ سن کر محبوب الہیٰ چپ ہو رہے۔اور وعظ میں مشغول ہوئے۔اتنے میں جناب باری تعالی سے حضرت کو خطاب ہوا اے محبوب الہٰی آپ بھی کچھ مانگو چنانچہ تین مرتبہ ایسا ہی خطاب ہوا۔آپ بدستور وعظ میں شامل رہے چوتھی مرتبہ غور فرمایا کہ جناب باری تعالیٰ مجھے خطاب فرماتا ہےاور میں چپ رہو یہ سوء ادبی ہے پس حسب الارشاد باری تعالٰی عرض کیا میں جس کو غوثیت,قطبیت,کرامت,ولایت عطا کروں اگرچہ وہ کیسا ہی ہو تا قیامت اسکے خاندان میں امانتا جاری رہے۔جناب باری سے ارشاد ہوا اے محبوب جو مانگو منظور ہے۔آپ نے ارشاد فرمایا اس محفل میں جتنے بیٹھے ہیں کھڑے ہوجائیں۔حضرت امیر خسرو ؒ,حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلویؒ اور کئی بیٹھے رہے باقی 1400 حضرات جو کھڑے تھے ان سے فرمایا کہ اس دروازہ کی کمان سے بے گمان نکل جاؤ۔جو جائیگا غوث و قطب,ولی اور ابدال ہوگا۔حسب الارشاد گذرے اور نعمتیں حاصل کیں۔ایسے لاکھوں ولی اللّٰہ آپ کی خانقاہ مبارک سے مامور بخدمت نکلے۔”از آنجملہ حاجی سیاح سرور مخدوم سید سعید الدین الملقب بہ خلیل اللّٰہ رفاعی چشتی کفار بہنجن قدس اللّٰہ سرہ، بھی اسی دارالعلوم مدرسہ صوفیہ کے ایک جلیل القدر ومنتہی کامل اولیاء( میں سے) ہیں۔” (آئینِ حزبُ اللّٰہ ص ۱۱۱,۱۱۲)

🔰سفردکن اور توطن قندھار:-
725ھ میں محبؤب الہیٰ کا وصال ھوا اور اسکے بعد محمد تغلق نے دہلی خالی کرکے دولت آباد کو پایہ تخت قرار دیا اس وقت جن اولیاء نے دکن کی طرف رخ کیا ان میں حاجی سیاح سرور مخدوم ؒ کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔آپ شیخ ابراہیم سپہ سالار کیساتھ دکن تشریف لائے اور متعدد معرکوں میں شرکت کی جسمیں آپ نے مخالفین کے کئی سرداروں کو قتل کیا جس کی وجہ سے کفار بہنجن مشہور ہو گئے۔
دکن آنے کے بعد آپ نے قندھار کو اپنی اقامت کے لیے پسند کیا۔اس وقت قندھار ہندؤں کا متبرک مقام تھا رآمائن اور مہا بھارت کے ہیرؤں کا مسکن رہ چکا تھا۔اس وجہ سے یہاں مندروں کی کافی تعداد تھی۔کفر کا بول بالا تھا مخلوق خدا شرک پرستی میں مست خالق حقیقی سے نا آشنا جہالتوں کے اندھیروں میں زندگی گذار رہی تھیں۔ایسے پر فتن ماحول میں آپ نے شمع حق جلائی اور لوگوں کو دعوت اسلام دی۔آپکے اخلاق کریمہ اور کرامات نے لوگوں کو گرویدہ کرلیا۔بہتوں نے آپکے دستِ حق پر اسلام قبول کیا ۔

👈آپکے مریدین و معتقدین کی تعداد بہت زیادہ تھی نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو بھی آپکی بزرگی کے قائل تھے۔
آپ اپنا بیشتر وقت تنہائی میں گذارتے آپ نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ یاد الہیٰ میں گذارا شہر سے دور ایک پہاڑ پر موجود تسبیح خانہ میں آپ اپنے مالک حقیقی کے ذکر میں مشغول رہتے تھے۔وہ جگہ گول ٹیکڑی کے نام سے آج بھی مشہور ہے۔
آپ نے اپنے مریدین کی ہدایت و تربیت کی خاطر انکے نام مکتوبات تحریر کئے جو “مکتوبات سروری” کے نام سے مشہور ہے جس میں آپنے مسائل تصوف اس خوبی سے بیان کئے ھیں کہ انکا مطالعہ علم تصوف کے مبتدی اور منتہی کے لئے یکساں فائدہ پہنچا سکتا ہے۔

🔰وصال:-
حضرت حاجی سیاح سرور مخدوم ؒ نے 16 رجب 736ھ کو وصال فرمایا آپکے فرزند نے جسم مبارک کو غسل دیا اور مریدین و معتقدین کی جماعت کثیر کے ساتھ نماز جنازہ ادا کی گئی۔مسکن سے کچھ فاصلے پر مدفن تیار کیا گیا جس پر نہایت شاندار گنبد کی تعمیر ہوئی۔روضہ آج تک مرجع خاص و عام ہے۔905 ھ میں خواجۂ دکن بندہ نواز گیسو درازؒ نے بارگاہ سرور مخدوم میں حاضری دی اورآپ کے فیض سے مستفیض ہوئے۔

اولاد:-
سرور مخدوم ؒ کے دو فرزند تھے۔
پہلے فرزند زین الحقؒ جنکا کمسنی میں ہی وصال ہوگیا تھا۔
دوسرے فرزند شاہ عزالحق عزیز الدين ؒ جن کے تین صاحبزادے تہے۔1)زین الدینؒ 2)سراج الدینؒ,3)نجم الدين ؒ ۔
آپؒ نے اپنی وفات سے پہلے اپنے چہوٹے پوتے نجم الدینؒ کو اپنے پاس بلایا اور انکے سر پر عمامہ رکھا اور تسبیح,مسواک,مصلی,اور عصا بھی مرحمت کیا۔جسکی بنیاد پر انھیں کی اولآد میں سجادگی کا سلسلہ جاری ہو گیا۔

❇️ارشادات سرورمخدوم:-
👈شریعت کے مطالعہ سے نفس پاک ہوتا ہے اور سچائی کے نور سے خدا کے بھید اس پر کھلتے ہیں اور مخلوق کے مرتبہ کے حجابات درمیان سے اٹھ جاتے ہیں۔اسکی اتباع سے جسم اطاعت اور خدمت میں آتا ہے۔
👈طریقت کے مجاہدہ سے دل صاف ہوتا ہے اور نور عصمت سے مصفی ہوتا ہے,خدائے تعالی کے احکام کی باریکیاں اس پر کھل جاتی ہیں اور دنیا کے حجابات درمیان سے اٹھ جاتے ہیں,دل شہوات کے چھوڑنے سے حضوری میں آتا ہے۔
👈حقیقت کے مراقبہ سے روح روشن ہوتی ہے تجلی کے نور سے خدائے تعالی کی وحدانیت کے بھید اس پر کھل جاتے ہیں اور نفسانی مرادات کے حجابات درمیان سے اٹھ جاتے ہیں۔

مآخذ و مراجع :-
1)مکتوبات سروری —–قطب الاقطاب سرور مخدومؓ
2)آئن حزب اللّٰہ ۔۔۔۔۔۔۔۔مجدد آئین حزب اللّٰہ سید اسمعیل ذبیح اللّٰہ شاہؒ
3)مشاھیر قندھار۔۔۔۔۔۔۔۔محمد اکبر الدین صدیقی
4)مرقع انوار۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فصیح الدین نظامی۔

🖋مرتب کردہ:
خاک پائے اولیاءاللہ
سید شجاعت علی نوری
کلم نوری شریف، مہاراشٹرا

2856848f-5e49-414c-897e-d1517a110837

شيخ الاسلام قطب الاقطاب تاج المشايخ فجر اخبار كبريائي بندگی مخدوم حاجی سیاح سرور سعید الدين الرفاعي قدس سره العزيز ( المتوفى 736 ہجری)

آپ سادات رفاعیہ سے ہیں ۔
اور اپنے والد بزرگوار کے مرید و خلیفہ ہیں۔ اصلا آپ کے اجداد ملک عراق بصرہ کے رہنے والے تھے ، پہر ہند میں آکر دہلی میں اقامت اختیار کی ۔
حضرت مخدوم کو سیاحی کا شوق تھا ، بہت سے ملکوں کی سیر کر کے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں کچھ عرصہ اقامت فرمائی پہر دہلی تشریف لائے ۔

کتاب تاریخ قندہار دکن (مطبوعہ 1321 ہجری ) میں موجود ہے کہ آپ کو خرقہ خلافت آپ كے والد بزرگوار سے ملا ہے اور اپ نے حضرت شیخ نظام الدین اولیا قدس سرہ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہو کر استفادہ حاصل کیا ہے ۔

حضرت مخدوم کا سلسلہ خلافت
آپ کا سلسلہ خلافت رفاعیہ 10 واسطوں سے سید السادات سید احمد کبیر رفاعي سے ملتا ہے ۔
اور وہ اس طرح ہے ۔
سید سعید الدین الرفاعي
١۔ سید ابراہیم نجم الدین الرفاعي
٢۔ سيد شمس الدين الرفاعي
٣۔ سيد نجم الدين الرفاعي
٤۔ سيد تاج الدين الرفاعي
٥۔ سيد شمس الدين الرفاعي
٦۔ سيد نجم الدين احمد
٧۔ سيد قطب الدين أبى الحسن علي
٨۔ سيد ابراهيم
٩۔ سيد عبد الرحيم
١٠۔ سيد علي
١١۔ سيد السادات سيد احمد الكبير الرفاعي قدس سره العزيز
رحمهم الله عليهم

آپ کا سفر دکن
725 ہجری میں حضرت محبوب الہی نظام الدین اولیا قدس سرہ کا دہلی میں وصال ہوا۔ اور اس کے بعد ہی محمد تغلق نے دہلی خالی کر کے دولت آباد کو پایہ تخت قرار دیا۔ اس وقت جن اولیا نے دکن کی طرف رخ کیا ان میں حاجی سیاح سرور قدس سرہ کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔
آپ حضرت شیخ سید ابراہیم سپہ سالار (جو محمد تغلق کی فوج میں سپہ سالار تھے) کے ساتھ دولت آباد ائے ۔ آپ کے کرامات اور خرق عادات نے عوام کو گرویدہ کر لیا بہت لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ۔اور آپ کے عقیدت مندوں کا حلقہ روز بہ روز وسیع تر ہوتا گیا ۔
دکن آنے کے بعد قندہار کو اپنی اقامت کے لئے پسند کیا ۔ چنانچہ آپ نے تالاب کے مشرقی کنارے پر اور حضرت ابراہیم سپہ سالار نے مغربی کنارے پر قیام کیا ۔

حضرت مخدوم کے سجادہ نشین
حضرت امیر حمزہ نے کتاب تاریخ قندہار دکن (مطبوعہ 1321 ہجری ) میں لکھا ہے کہ جب آپ کا وصال کا وقت قریب پہنچا تو آپ نے اپنے چھوٹے پوتے سید نجم الدین ابن سید عز الحق کے سر پر اپنے سر کا عمامہ رکھا اور تسبیح ، مسواک ، مصلی، عصا مرحمت کیا ۔ اور سید نجم الدین ہی اولادوں میں سجادگی کا سلسلہ جاری ہوا ۔ اور سید نجم الدین ابن سید عز الحق کی اولاد میں چھٹے سجادہ نشین سید شاہ شیخ بڑے حقانی صاحب کو ایک ہی دختر تھیں اور ان کے بعد سجادگی حضرت شیخ بڑے حقانی صاحب کی دختر کی اولاد میں جاری ہوئی ۔ اور پہر سجادگی حضرت کی آل میں منتقل ہو گئی۔
اور اس وقت سید مرتضى پاشا حسینی مسند سجادگی پر متمکن ہیں ۔

حضرت مخدوم کا وصال
16 رجب 736 ہجری میں آپ کا وصال ہوا جیسا کہ کتاب تاریخ قندہار دکن میں موجود ہے ۔
کتاب انوار القندهار میں مولانا شاہ رفیع الدین قدس سرہ اور کتاب تحفة الاحمدي میں مولانا محمد بن سید حسینی رفاعی نے آپ کی تاریخ وفات 17 ماہ رجب 736 ہجری لکھی ہے

WhatsApp Image 2022-02-13 at 5.43.40 PM

𝐇𝐚𝐳𝐫𝐚𝐭 𝐒𝐲𝐞𝐝 𝐒𝐚𝐞𝐞𝐝𝐨𝐝𝐝𝐢𝐧 𝐑𝐢𝐟𝐚𝐢 𝐀𝐥𝐦𝐚𝐫𝐨𝐨𝐟 𝐇𝐚𝐣𝐢 𝐒𝐚𝐲𝐲𝐚𝐡 𝐒𝐚𝐫𝐰𝐚𝐫 𝐞 𝐌𝐚𝐤𝐡𝐝𝐨𝐨𝐦 𝐐𝐚𝐧𝐝𝐡𝐚𝐫𝐢 𝐐𝐮𝐝𝐝𝐚𝐬 𝐒𝐢𝐫𝐫𝐚𝐡𝐮 𝐀𝐳𝐢𝐳, 𝐊𝐚𝐧𝐝𝐡𝐚𝐫 𝐒𝐡𝐚𝐫𝐢𝐟, 𝐍𝐚𝐧𝐝𝐞𝐝, 𝐌𝐚𝐡𝐚𝐫𝐚𝐬𝐡𝐭𝐫𝐚.

♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦

𝐋𝐚𝐪𝐚𝐛 :
𝐐𝐮𝐭𝐛𝐮𝐥 𝐀𝐪𝐭𝐚𝐛, 𝐒𝐡𝐚𝐢𝐤𝐡𝐮𝐥 𝐈𝐬𝐥𝐚𝐦, 𝐓𝐚𝐣-𝐮𝐥 𝐌𝐚𝐬𝐡𝐚𝐢𝐤𝐡, 𝐇𝐚𝐣𝐢 𝐒𝐚𝐲𝐲𝐚𝐡, 𝐒𝐚𝐫𝐰𝐚𝐫 𝐞 𝐌𝐚𝐤𝐡𝐝𝐨𝐨𝐦.

***********

Aap Hussaini Hai aur Sadaat e Rifai hai.Aap Ka Silsila e Nasab Hazrat Imam Hussain Radiallahu Ta’ala Anhu se 24 wasto se ja milta hai.

Aap Gous us Saalikin,Rais ul Aarifeen,Syed ul Auliya, Hazrat Syed Ahmed Kabeer Rifai Radiallahu anhu ki Aal se hai.Aap ke Walid ka naam Hazrat Syed Ibrahim Najmudeen Rifai Quddas Sirrahu Aziz Hai.Aap Apne walid e mohtram ke Mureed wa Khalifa Hai.

Aap apne Walida ke Nasab se 12 wasto se ho kar Amirul-Momineen Hazrat Umar Farooq Radiallahu Ta’ala Anhu se ja milte hai.Aap ki walida ka naam Bibi Fatima hai aur aap Shaikhul Islam Hazrat Khwaja Baba Fareedoddin Ganj e Shakkar Quddas Sirrahu Aziz ki lakhte jigar (beti) hai.Ess lihaz se aap Hazrat Khwaja Fareedoddin Ganj E Shakkar Quddas Sirrahu Aziz ke nawase Hai.

𝐁𝐚𝐛𝐚 𝐅𝐚𝐫𝐢𝐝 𝐀𝐚𝐩𝐤𝐞 𝐍𝐚𝐧𝐚
𝐀𝐡𝐦𝐞𝐝 𝐑𝐢𝐟𝐚𝐢 𝐀𝐚𝐩𝐤𝐞 𝐃𝐚𝐝𝐚
𝐀𝐚𝐩 𝐀𝐥𝐢 𝐊𝐞 𝐋𝐚𝐚𝐥 𝐇𝐨
𝐀𝐚𝐥 𝐞 𝐌𝐮𝐬𝐭𝐚𝐟𝐚 ﷺ 𝐇𝐨.
𝐌𝐚𝐤𝐡𝐝𝐨𝐨𝐦 𝐊𝐚𝐧𝐝𝐡𝐚𝐫𝐢 💓

Aap ki Tarikh e Wiladat ko lekar Tarikh khamosh hai.Mulk e Iraq ke Basra Shaher me aap ki wiladat hui aur aap Basra ke hi rahnewale the phir aap ne hind me tashreef laye aur Dehli me aakar iqamat ikhtiyar ki (Ruke).

Aap Dehli me us waqt Hazrat Nizamuddin Auliya Quddas Sirrahu Aziz ke Darbar (Khankah) me unke sath rahkar kuch arsa unki khidmat me rah kar unse faiz hasil kiya aur Zahiri wa Batini uloom me Kamil hue.

***********

𝐇𝐚𝐣𝐢 𝐒𝐚𝐲𝐲𝐚𝐡 𝐊𝐚 𝐋𝐚𝐪𝐚𝐛 :

Hazrat Sarware Makhdoom Alaihirrahma ne Deen ki Tabligh ke liye bahut zyada Sayyahi ki (safar kiya) hai.Aap ne bahut se mulko ko ka safar tay kar ke,aap Makkah Mukarrama aur Madina Munawarra me kuch arsa Rahe.Aap ne apni zindagi me kai baar paidal chal kar Hajj ada kiya tha.Isiliye aap Haji Sayyah Sarware Makhdoom Qandhari Quddas Sirrahu Aziz ke laqab se bahut zyada mashoor hai.Deccan me (Marathwada,Telangana & Karnataka) me aap ki bargah ko “Badi Dargah” kaha jata hai.

***********

𝐇𝐚𝐳𝐫𝐚𝐭 𝐊𝐡𝐰𝐚𝐣𝐚 𝐁𝐚𝐧𝐝𝐚 𝐍𝐚𝐰𝐚𝐳 𝐆𝐞𝐬𝐮𝐝𝐚𝐫𝐚𝐳 𝐐𝐮𝐝𝐝𝐚𝐬 𝐒𝐢𝐫𝐫𝐚𝐡𝐮 𝐀𝐳𝐢𝐳 𝐤𝐚 𝐀𝐚𝐩 𝐤𝐢 𝐛𝐚𝐫𝐠𝐚𝐡 𝐦𝐞 𝐇𝐚𝐣𝐫𝐢 𝐤𝐚 𝐰𝐚𝐪𝐢𝐚 :

Jab

Hazrat Khwaja Banda Nawaz رحمۃ اللہ علیہ Jab Deccan me Aaye toh Aap ne
Hazrat Syed Saeedoddin Rifai Almaroof Haji Sayyah Sarwar e Makhdoom رحمۃ اللہ علیہ ki bargah Kandhar Sharif me 803 Hijri me Hazri dene aaye toh apne Unki Shan me ye Sher Padha tha jo aaj bhi aap ki mazar ke androoni hisse me likha hua hai.👇

𝐒𝐚𝐫𝐩𝐚 𝐞 𝐒𝐢𝐫𝐫𝐢 𝐇𝐚𝐪 𝐍𝐨𝐨𝐫 𝐞 𝐊𝐡𝐮𝐝𝐚 𝐌𝐚𝐤𝐡𝐝𝐨𝐨𝐦 𝐊𝐚𝐧𝐝𝐡𝐚𝐫𝐢
𝐒𝐚𝐫𝐚𝐬𝐚𝐫 𝐍𝐚𝐤𝐬𝐡 𝐏𝐚𝐞 𝐌𝐮𝐣𝐭𝐚𝐛𝐚 𝐌𝐚𝐤𝐡𝐝𝐨𝐨𝐦 𝐊𝐚𝐧𝐝𝐡𝐚𝐫𝐢 ❤️

𝐓𝐚𝐫𝐣𝐮𝐦𝐚 :

Sar Ta Ba-Qadam Raaz e Haq Noor E Khuda Makhdoom Kandhari.

Hai Mukammal Muhammad ﷺ Ke Naqsh e Qadam Par Makhdoom Kandhari.

Jo aaj bhi aap ki mazar ke androoni hisse me likha hua hai.

***********

𝐇𝐚𝐳𝐫𝐚𝐭 𝐒𝐚𝐫𝐰𝐚𝐫𝐞 𝐌𝐚𝐤𝐡𝐝𝐨𝐨𝐦 𝐑𝐚𝐡𝐦𝐚𝐭𝐮𝐥𝐥𝐚𝐡 𝐀𝐥𝐚𝐢𝐡 𝐊𝐚 𝐒𝐢𝐥𝐬𝐢𝐥𝐚 𝐞 𝐊𝐡𝐢𝐥𝐚𝐟𝐚𝐭 :

Silsila Rifai Ki Khilafat :

Jaisa ki kitab Hazrat Amir Hamza Sahab ki kitab ‘Tarikh e Qandhar’ me maujood hai ki aap Apne walid Hazrat Syed Ibrahim Najmudeen Rifai Quddas Sirrahu Aziz ke Mureed hai aur aap unhi ke Khalifa Hai.Aur aap ko Qirqa e Khilafat bhi apne Walid Buzurgwar se hasil hua hai.Hazrat Syed Saeedoddin Rifai Almaroof Haji Sayyah Sarwar e Makhdoom Qandhari Quddas Sirrahu Aziz Hindustan me “Rifai Silsile” ke awwalin buzurgon me se hai.Jo Hindustan me Rifai Silsila lekar aaye hai.

𝐒𝐮𝐟𝐢 𝐎𝐫𝐝𝐞𝐫 : 𝐑𝐢𝐟𝐚𝐢 𝐒𝐢𝐥𝐬𝐢𝐥𝐚

Aap ka Silsila e Nasab 7 wasto se hokar Gous us Saalikin,Rais ul Aarifeen,Syed ul Auliya,Hazrat Syed Ahmed Kabeer Rifai Mashookullah Radiallahu anhu se ja milta hai.
Woh ess tarah hai,

𝐇𝐚𝐳𝐫𝐚𝐭 𝐒𝐲𝐞𝐝 𝐒𝐚𝐞𝐞𝐝𝐨𝐝𝐝𝐢𝐧 𝐑𝐢𝐟𝐚𝐢 𝐁𝐢𝐧
1) Hazrat Syed Ibrahim Najmudeed Rifai Bin
2) Hazrat Syed Ali Muhammad Rifai Bin
3) Hazrat Syed Yahya Rifai Bin
4) Hazrat Syed Abdullah Bin
5) Hazrat Syed Ibrahim Ala Garib Bin
6) Hazrat Ali Al Sukran Rifai Bin
7) 𝐇𝐚𝐳𝐫𝐚𝐭 𝐈𝐦𝐚𝐦 𝐒𝐲𝐞𝐝 𝐀𝐡𝐞𝐦𝐚𝐝 𝐊𝐚𝐛𝐞𝐞𝐫 𝐑𝐢𝐟𝐚𝐢 𝐌𝐚𝐬𝐡𝐨𝐨𝐤𝐮𝐥𝐥𝐚𝐡 𝐑𝐚𝐝𝐢𝐚𝐥𝐥𝐚𝐡𝐮 𝐚𝐧𝐡𝐮.

(Ref :Tarikh e Qandhar Deccan)

Aap ka Silsile e Tariqat e Rifaiya 11 wasto se hokar Gous us Saalikin,Rais ul Aarifeen,Syed ul Auliya Hazrat Syed Ahmed Kabeer Rifai Radiallahu anhu se ja milta hai.
Woh ess tarah hai,

𝐇𝐚𝐳𝐫𝐚𝐭 𝐒𝐲𝐞𝐝 𝐒𝐚𝐞𝐞𝐝𝐨𝐝𝐝𝐢𝐧 𝐑𝐢𝐟𝐚𝐢 𝐐𝐮𝐝𝐝𝐚𝐬 𝐒𝐢𝐫𝐫𝐡𝐮 𝐀𝐳𝐢𝐳 :
1) Hazrat Syed Ibrahim Najmudeen Rifai RA
2) Hazrat Shamsuddin Rifai RA
3) Hazrat Syed Najmuddin Rifai RA
4) Hazrat Syed Tajuddin Rifai RA
5) Hazrat Syed Shamsuddin Ahmed Rifai RA
6) Hazrat Syed Najmuddin Ahmed Rifai RA
7) Hazrat Syed Qutbuddin Abul Hasan Ali Rifai RA
8) Hazrat Syed Ibrahim Rifai RA
9) Hazrat Syed Mehazabuddin Abdul Rahim Rifai RA
10) Hazrat Syed Saifuddin Ali Rifai RA
𝟏𝟏) 𝐆𝐨𝐮𝐬 𝐮𝐬 𝐒𝐚𝐚𝐥𝐢𝐤𝐢𝐧,𝐑𝐚𝐢𝐬 𝐮𝐥 𝐀𝐚𝐫𝐢𝐟𝐞𝐞𝐧,𝐒𝐲𝐞𝐝 𝐮𝐥 𝐀𝐮𝐥𝐢𝐲𝐚 𝐇𝐚𝐳𝐫𝐚𝐭 𝐒𝐲𝐞𝐝 𝐀𝐡𝐦𝐞𝐝 𝐊𝐚𝐛𝐞𝐞𝐫 𝐑𝐢𝐟𝐚𝐢 𝐑𝐚𝐝𝐢 𝐀𝐥𝐥𝐚𝐡𝐮 𝐓𝐚’𝐚𝐥𝐚 𝐀𝐧𝐡𝐮

(Ref :Tarikh e Qandhar Deccan)

***********

𝐀𝐚𝐩 𝐤𝐚 𝐒𝐚𝐟𝐚𝐫 𝐞 𝐃𝐞𝐜𝐜𝐚𝐧 (𝐃𝐚𝐮𝐥𝐚𝐭𝐚𝐛𝐚𝐝, 𝐍𝐞𝐚𝐫 𝐀𝐮𝐫𝐚𝐧𝐠𝐚𝐛𝐚𝐝) :

725 Hijri me Hazrat Mehboob E Ilahi Nizamuddin Auliya Quddas Sirrahu Aziz ka dehli me wisaal hua,aur uske baad hi Badshah Muhammad bin Tughlaq ne Dehli khali kar ke Daulatabad ko Darul Hukumat (Capital) qarar diya.Uske baad Jin Auliya ne Deccan ki taraf rukh kiya unme Hazrat Sarware Makhdoom Quddas Sirrahu Aziz aur Hazrat Syed Sheikh Ibrahim Sipahsalar Rifai Alaihirrahma ( Jo us waqt Muhammad Tughlaq ke fauj me Sipahsalar the) ko khaas ahmiyat hasil hai. Aap dono Muhammad bin Tughlaq ke sath Daulatabad aaye aur bahut si ladaiyon me sharik rahe.Aap ke ache akhlaq aur Karamaton ko dekh kar log aap se bahut muhabbat karne lage.Gair muslim Log zauq dar zauq aap ke haath par Deen e islam qubool karne lage.Din ba din aap se muhabbat aur aqidat rakhne walon ki tadad badhti gayi.Aap Deccan me aane ke baad,aap ne Kandhar ko apne rahne ke liye pasand kiya.Kandhar me aap ne mashriqi janib (east side) taalab ke kinare rahna pasand kiya aur Hazrat Syed Sheikh Ibrahim Sipahsalar ne maghribi janib ke kinare par kuch arsa qayyam kiya.Us waqt Kandhar me ek bhi muslim ghar nahi tha.Phir aapne Deen ki dawat ka kaam zoro shor se shuru kiya aur Deen e Islam ki Tabligh ki.Hazaaro ki tadad me Gair muslim ne aap ke ache akhlaq,taqwa aur kasrat se Karamaton ko dekh kar islam qubool kiya.Aap hi ke mehnat ka natija raha hai ki poor elaqe me Deen e islam ka Charag roshan hua.

𝐑𝐚𝐧𝐠 𝐑𝐚𝐟𝐚𝐢 𝐂𝐡𝐢𝐬𝐡𝐭𝐢 𝐌𝐞
𝐃𝐨𝐨𝐛𝐚 𝐇𝐚𝐢 𝐐𝐚𝐧𝐝𝐡𝐚𝐫 𝐃𝐞𝐜𝐜𝐚𝐧
𝐃𝐮𝐧𝐢𝐲𝐚 𝐁𝐡𝐚𝐫 𝐌𝐞 𝐃𝐚𝐧𝐤𝐚 𝐇𝐚𝐢
𝐇𝐚𝐣𝐢 𝐒𝐚𝐲𝐲𝐚𝐡 𝐒𝐚𝐫𝐰𝐚𝐫 𝐊𝐚 👑

***********

𝐏𝐚𝐫𝐢𝐰𝐚𝐫 :

Aap ki Biwi ka naam Hafeeza Bibi Aamina tha.

Unse aapko 2 Sahebzaade hue.

1) Hazrat Syed Shah Zainul Haq Rifai.

Inka wisaal bachpan me hi ho gaya tha.

2) Hazrat Syed Shah Izzul Haq Azizoddin Rifai.

Aap ke 3 Sahebzaade the.

1) Hazrat Syed Zainuddin Rifai.
2) Hazrat Syed Sirajuddin Rifai.
3) Hazrat Syed Najmuddin Rifai.

𝐇𝐚𝐳𝐫𝐚𝐭 𝐒𝐚𝐫𝐰𝐚𝐫𝐞 𝐌𝐚𝐤𝐡𝐝𝐨𝐨𝐦 𝐐𝐮𝐝𝐝𝐚𝐬 𝐒𝐢𝐫𝐫𝐡𝐮 𝐀𝐳𝐢𝐳 𝐤𝐞 𝐒𝐚𝐣𝐣𝐚𝐝𝐚 𝐍𝐚𝐬𝐡𝐞𝐞𝐧 𝐤𝐚 𝐖𝐚𝐪𝐢𝐚 :

Hazrat Amir Hamza ne apni kitab ‘Tarikhe Qandhar Deccan’ ( Jo saal 1903 me Published hui) Usme likha ki jab aap ke wisaal ka waqt qareeb pahuncha toh aapne apne chote pote Hazrat Syed Najmudeen bin Izzul Haq RA ke sar par apna sar ka Amama rakh diya.Tasbeeh,Miswak,Mussalla aur apna Asa (chadi) mubarak de diya.Phir wahan se Hazrat Syed Najmuddin Alaihirrahma ki hi aal me se Sajjadagi ka silsila jari hua.

𝐀𝐚𝐩 𝐊𝐞 𝐊𝐡𝐚𝐥𝐢𝐟𝐚 : Hazrat Syed Najmudeen bin Izzul Haq RA.

**********
𝐀𝐚𝐩 𝐊𝐢 𝐓𝐚𝐥𝐢𝐦𝐚𝐚𝐭 :

Aap ke mureedin wa mautaqeen ki tadad bahut zyada thi.Na sirf muslim balki gair muslim bhi aap ki buzurgi ke qael the. Aap apna zyadatar waqt tanhai me guzara karte.Aap ne apni zindagi ka har lamha yaad e ilaahi me guzara.Shaher e Qandhar se dur ek pahadi par maujood aap ka Chilla Mubarak me aap apne Malik e Haqiqi ke zikr me mashgool rahte the.Woh jagah aaj bhi ‘Gul-Tekdi’ ke naam se mashoor hai.

Aap ne apne mureedo ki tarbiyat ke wa nasihat ke liye Farsi language me khatut likhe, jo “Maktubat e Sarwari” ke naam se mashoor hai.Jisme aap ne ‘Tasawwuf’ ke masaeel ko badi khoobi ke saath bayan kiya hai.Qurani aayaton,ahadeeso mubareka ke aur sufiya ikram ke hawale bhi in khatut me diye gaye hai.

𝐈𝐫𝐬𝐡𝐚𝐝𝐚𝐭 𝐞 𝐒𝐚𝐫𝐰𝐚𝐫𝐞 𝐌𝐚𝐤𝐡𝐝𝐨𝐨𝐦 :

1) Shariyat ke mutalle se nafs pak hota hai aur sacchai ke noor se khuda ke bhed us par khulte hai aur maqluq ke martabe ke hijabat darmiyan se uth jate hai. Uski ibte’ba se jism ita’at aur khidmat mein aata hai.

2) Tariqat ke mujahide se dil saaf hota hai aur noor-e-asmat se musfi hota hai, khuda-e-taala ke ahkaam ki barikiyan us par khul jati hai aur duniya ke hijabat darmiyan se uth jate hai, dil shahwat ke chodne se huzuri mein aata hai.

3) Haqiqat ke muraqabe se rooh roshan hoti hai,Tajjali ke noor se khuda-e-ta’ala ki wahdaniyat ke bhed us par khul jate hai aur nafsani muradat ke hijabat darmiyan se uth jate hai.

***********

𝐖𝐢𝐬𝐚𝐚𝐥 :

Aap ka wisaal 16 Rajab 736 Hijri ko Kandhar Sharif me hua,aap ke makan ke qareeb hi aapki tadfeen amal me aayi.

***********

𝐌𝐚𝐳𝐚𝐫 𝐞 𝐌𝐮𝐛𝐚𝐫𝐚𝐤 : 𝐊𝐚𝐧𝐝𝐡𝐚𝐫 𝐒𝐡𝐚𝐫𝐢𝐟,𝐍𝐚𝐧𝐝𝐞𝐝, 𝐌𝐚𝐡𝐚𝐫𝐚𝐬𝐡𝐭𝐫𝐚.

ALLĀH ta’ala us ke Habeeb sallallāhu alaihi wa sallam ke sadqe me Aur Hazrat Syed Saeedoddin Rifai Rahmatullāhi alaihi aur tamaam Auliya Allāh ke waseele se,Sab ko mukammal ishq e Rasool ata farmae aur Sab ke imaan ki hifaazat farmae aur Sab ko nek amal karne ki taufiq ata farmae. Aur Sab ko dunya wa aakhirat me kaamyaabi ata farmae aur Sab ki nek jaa’iz muraado ko puri farmae.
𝗔𝗮𝗺𝗲𝗲𝗻 🤲

♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦
𝐓𝐚𝐚𝐥𝐢𝐛 𝐞 𝐃𝐮𝐚 :
𝐒𝐡𝐚𝐢𝐤𝐡 𝐀𝐧𝐞𝐞𝐬 𝐀𝐡𝐞𝐦𝐚𝐝 𝐑𝐢𝐟𝐚𝐢 𝐀𝐥 𝐐𝐚𝐝𝐫𝐢.
𝐍𝐚𝐧𝐝𝐞𝐝,𝐌𝐚𝐡𝐚𝐫𝐚𝐬𝐡𝐭𝐫𝐚.

شيخ الاسلام قطب الاقطاب تاج المشايخ فجر اخبار كبريائي بندگی مخدوم حاجی سیاح سرور سعید الدين الرفاعي قدس سره العزيز ( المتوفى 736 ہجری)
آپ سادات رفاعیہ سے ہیں ۔
اور اپنے والد بزرگوار کے مرید و خلیفہ ہیں۔ اصلا آپ کے اجداد ملک عراق بصرہ کے رہنے والے تھے ، پہر ہند میں آکر دہلی میں اقامت اختیار کی ۔
حضرت مخدوم کو سیاحی کا شوق تھا ، بہت سے ملکوں کی سیر کر کے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں کچھ عرصہ اقامت فرمائی پہر دہلی تشریف لائے ۔
کتاب تاریخ قندہار دکن (مطبوعہ 1321 ہجری ) میں موجود ہے کہ آپ کو خرقہ خلافت آپ كے والد بزرگوار سے ملا ہے اور اپ نے حضرت شیخ نظام الدین اولیا قدس سرہ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہو کر استفادہ حاصل کیا ہے ۔
حضرت مخدوم کا سلسلہ خلافت
آپ کا سلسلہ خلافت رفاعیہ 10 واسطوں سے سید السادات سید احمد کبیر رفاعي سے ملتا ہے ۔
اور وہ اس طرح ہے ۔
سید سعید الدین الرفاعي
١۔ سید ابراہیم نجم الدین الرفاعي
٢۔ سيد شمس الدين الرفاعي
٣۔ سيد نجم الدين الرفاعي
٤۔ سيد تاج الدين الرفاعي
٥۔ سيد شمس الدين الرفاعي
٦۔ سيد نجم الدين احمد
٧۔ سيد قطب الدين أبى الحسن علي
٨۔ سيد ابراهيم
٩۔ سيد عبد الرحيم
١٠۔ سيد علي
١١۔ سيد السادات سيد احمد الكبير الرفاعي قدس سره العزيز
رحمهم الله عليهم
آپ کا سفر دکن
725 ہجری میں حضرت محبوب الہی نظام الدین اولیا قدس سرہ کا دہلی میں وصال ہوا۔ اور اس کے بعد ہی محمد تغلق نے دہلی خالی کر کے دولت آباد کو پایہ تخت قرار دیا۔ اس وقت جن اولیا نے دکن کی طرف رخ کیا ان میں حاجی سیاح سرور قدس سرہ کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔
آپ حضرت شیخ سید ابراہیم سپہ سالار (جو محمد تغلق کی فوج میں سپہ سالار تھے) کے ساتھ دولت آباد ائے ۔ آپ کے کرامات اور خرق عادات نے عوام کو گرویدہ کر لیا بہت لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ۔اور آپ کے عقیدت مندوں کا حلقہ روز بہ روز وسیع تر ہوتا گیا ۔
دکن آنے کے بعد قندہار کو اپنی اقامت کے لئے پسند کیا ۔ چنانچہ آپ نے تالاب کے مشرقی کنارے پر اور حضرت ابراہیم سپہ سالار نے مغربی کنارے پر قیام کیا ۔
حضرت مخدوم کے سجادہ نشین
حضرت امیر حمزہ نے کتاب تاریخ قندہار دکن (مطبوعہ 1321 ہجری ) میں لکھا ہے کہ جب آپ کا وصال کا وقت قریب پہنچا تو آپ نے اپنے چھوٹے پوتے سید نجم الدین ابن سید عز الحق کے سر پر اپنے سر کا عمامہ رکھا اور تسبیح ، مسواک ، مصلی، عصا مرحمت کیا ۔ اور سید نجم الدین ہی اولادوں میں سجادگی کا سلسلہ جاری ہوا ۔ اور سید نجم الدین ابن سید عز الحق کی اولاد میں چھٹے سجادہ نشین سید شاہ شیخ بڑے حقانی صاحب کو ایک ہی دختر تھیں اور ان کے بعد سجادگی حضرت شیخ بڑے حقانی صاحب کی دختر کی اولاد میں جاری ہوئی ۔ اور پہر سجادگی حضرت کی آل میں منتقل ہو گئی۔
اور اس وقت سید مرتضى پاشا حسینی مسند سجادگی پر متمکن ہیں ۔
حضرت مخدوم کا وصال
16 رجب 736 ہجری میں آپ کا وصال ہوا جیسا کہ کتاب تاریخ قندہار دکن میں موجود ہے ۔
کتاب انوار القندهار میں مولانا شاہ رفیع الدین قدس سرہ اور کتاب تحفة الاحمدي میں مولانا محمد بن سید حسینی رفاعی نے آپ کی تاریخ وفات 17 ماہ رجب 736 ہجری لکھی ہے۔
(دخول السادة الرفاعية للهند ٧٢٥هـ)
أمدني بالمعلومات السيد: (سيد آمر حسيني الرفاعي) حفظه رب العالمين
كان دخول الرفاعيين الهند عام (٧٢٥هـ) وكان على رأسهم السيد. سعيد الدين القندهاري (٧٣٦هـ) بن ابراهيم نجم الدين بن علي سيف الدين [دفين سلطانية] بن الإمام محمد تاج الدين [تاسع خلفاء ام عبيدة] بن الإمام أحمد شمس الدين المستعجل [ثامن خلفاء ام عبيدة] بن الإمام محمد شمس الدين [رابع خلفاء ام عبيدة] سبط الإمام أحمد الكبير الرفاعي العلوي ، وهو جد الشرفاء السرورية الرفاعية
وله كتاب [مكتوبات سروري]
ودخل معه ابن عمه السيد إبراهيم [الشهير بسالار] بن برهان الدين بن محمد بن أحمد بن عبد الرحيم نجم الدين بن الإمام أحمد شمس الدين المستعجل [ثامن خلفاء ام عبيدة] بن الإمام محمد شمس الدين [رابع خلفاء ام عبيدة] سبط الإمام أحمد الكبير الرفاعي العلوي ، وهو جد الشرفاء آل زكريا الرفاعي
قال رفيع الدين الفاروقي في [أنوار قندهار] ، وشمس الدين محمد أمير حمزة الفاروقي في [تاريخ قندهار]:
ان السيد ابرهيم سالار كان قائد جيش سلطان الهند محمد بن تغلق..
ومن أحفاد السيد ابراهيم سالار: شيخ الإسلام السيد علي بن أحمد بن محمد بن إبراهيم سالار الرفاعي العلوي صاحب كتاب [عين الجمال]
وقدم بعدهم السيد ضياء الدين البياباني (٩٠٩هـ) بن عبد الكريم بن عبد الرشيد بن عبد الرحيم بن عبد الجليل بن ابراهيم بن شمس الدين بن يوسف بن صالح بن الإمام أحمد نجم الدين [سابع خلفاءام عبيدة] سبط الإمام أحمد الكبير الرفاعي العلوي ، وهو جد الشرفاء البيابانية
وله كتاب [مطلوب الطالبين]
وجل الشرفاء الرفاعية يسكنون: (قندهار) ، (حيدرأباد) ، (اورنغاباد)
وللسيد الإمام محمد مهدي بهاء الدين الرواس كتاب [الفيوضات الهندية] كتبه حين زار الهند.

Malfuzate sarwari’ maktub book on Haji Sayyah Sarwar e Makhdoom Kandhari Rahmatullah Alaih (makashafat e sarwari book)

  1. قندھار Anwarul Qandhar 24-Oct-2019 15-39-27
  2. تاريخ قندهار دكن 1903
  3. file_1607156303171
  4. Sufi of Maharashtra
Advertisement